2016 کے امریکی صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کے وسیع پیمانے کے الزامات کے بعد پہلی بار یورپی یونین سے الگ ہونے سے متعلق برطانوی ریفرنڈم پر ماسکو کی جانب سے اثر انداز ہونے کی ممکنہ کوششوں کے شواہد سامنے آ رہے ہیں۔ محققین نے سوشل میڈیا کے ایسے ہزاروں اکاؤنٹس کا پتا چلا لیا ہے، جنہوں نے یورپی یونین کے مخالف پیغامات کو پھیلایا یا سیاسی اور نسلی کشیدگیوں کو ہوا دینے کی کوشش کی۔
جون 2016 میں یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں کامیابی تک پہنچنے کے دو دنوں میں روس میں قائم ٹوئیٹر کے اکاؤنٹس سے بریگسٹ کے بارے میں لگ بھگ 45000 پیغامات پوسٹ کیے گئے جن میں سے بیشتر یورپی یونین کے خلاف تھے۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے اور برطانیہ کی سوان سی یونیورسٹی کی ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اکاؤنٹس اس سے پہلے بریگسٹ کے بارے میں بحث نہیں کرتے تھے۔
یہ نئے شواہد ایسے میں سامنے آئے ہیں کہ جب برطانیہ کا الیکٹورل کمشن اور قانون سازوں کی ایک کمیٹی علیحدہ علیحدہ چھان بین شروع کر چکے ہیں۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ اور کمیٹی کے چیئر مین ڈامین کولنگز کہتے ہیں کہ روس مداخلت کر رہا ہے اور وہ سیاسی اداروں اور مغربی ملکوں کے مرکزی میڈیا پر عوام کا اعتماد کم کرنے کی کوشش میں ایسا کر رہا ہے ۔ ہمیں ٹوئیٹر اور فیس بک کے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے جعلی خبروں کے پھیلاؤ کے اس طریقے کو اپنی جمہوریت کے خلاف ایک خطرہ سمجھنا ہوگا۔
امریکی جاسوسي اداروں کا کہنا ہے کہ روس نے 2016 کے صدارتی انتخاب میں رخنہ اندازی کے لیے پراپیگنڈے کی ایک مہم کی ہدایت کی تھی ۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن اس مداخلت کی ترديد کر چکے ہیں ۔ گذشتہ ہفتے مسٹر پوٹن سے ملنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اپنے روسی ہم منصب پر یقین کرتے ہیں ۔
منگل کے روز گفتگو کرتے ہوئے برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے نے ماسکو کے لیے ایک بہت مختلف پیغام بھیجا۔ ان کا کہنا تھا کہ مغرب میں تنازعے کے بیج بونے کی ایک کوشش میں اپنے سرکاری میڈیا کے اداروں کو جعلی خبریں اور فوٹو شاپ کئی گئی تصاوير پھیلانے کے لئے مقرر کرنا، یہ اطلاعات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ایک کوشش ہے۔
ٹوئیٹر نے لگ بھگ 3000 ایسے اکاؤنٹس کی تفصیلات امریکی کانگریس کے حوالے کی ہیں جو روس کی انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی سے منسلک ہیں، اور جو سینٹ پیٹرس برگ کی اس عمارت میں قائم ہے، جہاں سے مبینہ طور پر سینکڑوں لوگ پراپیگنڈہ تشکیل دیتے اور پھیلاتے ہیں۔ یہ صرف انسانوں کا ہی کام نہیں ہے۔
سٹی یونیورسٹی آف لندن کے محققین نے ٹوئیٹر پر 13500 اکاؤنٹس کے ایک ایسے نیٹ ورک کا انكشاف کیا ہے جو بریکسٹ کی ووٹنگ کے وقت خودکار طریقے سے کام کررہے تھے۔
سٹی یونیورسٹی کے محققین نے یہ جائزہ نہیں لیا ہے کہ وہ نیٹ ورک کہاں سے شروع ہوا تھا۔ لیکن یورپ اور امریکہ دونوں کے قانون ساز کہتے ہیں کریملین ان اختلاف پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ٹوئیٹر اور فیس بک کا کہنا ہے کہ وہ چھان بین کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں لیکن ان پر مزید کچھ کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔