برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے نے یورپین یونین کے راہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ بریگزٹ کے بحران کا حل نکالنے میں تعاون کریں۔
لندن اور برسلز کے درمیان چار روز تک جاری رہنے والا بات چیت کا تیسرا دور بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا ہے۔ برطانوی اور یورپین یونین کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی طرف سے یورپین یونین کو خیر باد کہنے سے متعلق بات چیت میں دونوں فریقین میں تعطل برقرار ہے اور دونوں فریقین کے مؤقف میں پہلے جیسی خلیج موجود ہے جسے پر کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
دونوں فریقین تعطل کیلئے ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرا رہے ہیں۔ یورپین یونین کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ اس بارے میں بدستور ابہام کا شکار ہے کہ وہ دراصل کیا چاہتا ہے جبکہ برطانوی اہلکاروں کا مؤقف ہے کہ یورپین یونین آزاد تجارت کے معاہدے سے قبل برطانیہ کے یورپین یونین سے نکل جانے کی شرائط طے کرنا چاہتا ہے جو بقول برطانوی حکام کے بے معنی اور مصنوعی عمل ہو گا۔
دونوں فریقین میں تعطل کی بڑی وجہ یورپین یونین کی طرف سے برطانیہ سے بجٹ کی ادائیگی، منصوبوں اور ساختی قرضے کے ضمن میں 89 ارب ڈالر کا مطالبہ ہے جس کا برطانیہ نے پچھلے سال یورپین یونین سے نکل جانے سے قبل 2013 میں وعدہ کیا تھا۔ برطانیہ اس ادائیگی سے انکار کر رہا ہے جبکہ یورپین یونین اس رقم کے بارے میں کسی قسم کی رعایت دینے سے گریزاں ہے۔
یورپین یونین کے چیف مزاکرات کار مائیکل بارنیئر کا کہنا ہے ، ’’رعایت دینے کیلئے دو نقطہ ہائے نظر کی ضرورت ہوتی ہے یعنی ہمارا نقطہ نظر اور اُن کا نقطہ نظر۔ مجھے اُن کا نقطہ نظر جاننے کی ضرورت ہے۔ تبھی میں رعایت دے سکوں گا۔‘‘
یورپین پارلیمنٹ کے بریکسٹ رابطہ کار گائے ورہوفشٹڈ اُن سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ایک پارٹی اپنا مؤقف پیش کرے اور دوسرا فریق ایسا نہ کرے تو مزاکرات کا انعقاد ممکن ہی نہیں رہتا۔ ورہوفشٹڈ کے مطابق مزاکرات طے شدہ وقت میں مکمل کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا کہ برطانیہ اُس وقت تک کسی تصفیے پر آمادہ نہیں ہو گا جب تک وہ اپنی پسند کے مطابق آزاد تجارت کا معاہدہ طے نہیں کر لیتا۔ دوسری جانب یورپین یونین برطانیہ کے یورپین یونین سے نکل جانے اور آزاد تجارت کے معاہدے کو الگ الگ انداز میں دیکھتے ہیں۔