مذہبی آزادیوں سے متعلق امریکی رپورٹ؛ پاکستان 'خاص تشویش' والے ملکوں میں شامل

وزیر خارجہ بلنکن نے محکمہ خارجہ میں 2022 میں مذہبی آزادیوں کے بارے میں بات کی۔ فوٹو اے ایف پی

امریکہ نے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سالانہ رپورٹ میںچین، پاکستان اور میانمار سمیت 12 ممالک کو وہاں مذہبی آزادی کی موجودہ صورتِ حال کے لیے "خاص تشویش والے ممالک" کے طور پر نامزد کیا ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیر کو یہ رپورٹ جاری کی جو ہر سال اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے مرتب کی جاتی ہے۔

رپورٹ میں دنیا بھر میں مذہبی آزادی کی صورت حال ، مذہبی عقیدے اور گروہوں، مذہبی فرقوں اور افراد کے طرز عمل کی خلاف ورزی کرنے والی حکومتی پالیسیوں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں ہر ملک اور ہر علاقے میں مذہبی آزادی کو فروغ دینے والی امریکی پالیسیوں کا بھی اعادہ کیا جاتا ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ نے 1998 کے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت، مذہبی آزادی کی شدید خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے یا انہیں برداشت کرنے پر،برما (میانمار)، عوامی جمہوریہ چین، کیوبا، اریٹیریا، ایران، نکاراگوا، ڈیموکریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان کو خاص تشویش والے ممالک کی حیثیت سے نامزد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

رپورٹ میں پاکستان سے متعلق کیا ہے؟

محکمۂ خارجہ کی اس رپورٹ میں پاکستان کی صورتِ حال کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پولیس بعض اوقات مذہبی اقلیتوں کے ارکان کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔

رپورٹ کے مطابق عدالتوں نے توہینِ مذہب کے قوانین کا نفاذ جاری رکھا جن کی سزا موت تک تھی۔ تاہم کبھی بھی توہینِ مذہب کے جرم میں کسی کو پھانسی نہیں دی گئی۔

SEE ALSO: پاکستان میں احمدیوں کو ہراساں کرنے کی شکایات؛ 'وکیل بھی کیسز کی پیروی سے ڈرتے ہیں'

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سول سوسائٹی کی تنظیموں کے مطابق 2022 کے دوران کم از کم 52 افراد پر توہینِ مذہب یا متعلقہ مذہب کی بنیاد پر کرمنل الزامات لگائے گئے جن میں اکثریت احمدی کمیونٹی کے لوگوں کی تھی۔

محکمۂ خارجہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سول سوسائٹی کی رپورٹس کے مطابق، توہین مذہب کے الزام میں کم از کم چار افراد کو 2022 میں موت کی سزا سنائی گئی جن میں دو مسیحی اور دو مسلمان تھے۔

ان میں سے ایک کیس میں ایک جج نے توہینِ مذہب کے جرم میں عمر قید کی سزا کو موت کی سزا میں تبدیل کر دیا۔ دیگر معاملات میں، عدالتوں نے توہین مذہب کی کچھ سزاؤں کو اپیل کے بعدختم کر دیا اور ایسے افراد کو بری کردیا یا ضمانت دے دی ۔ ایسے افراد نے توہینِ مذہب کے الزام میں برسوں جیل میں گزارے تھے۔

غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے مطابق پولیس توہین مذہب کے الزام میں لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی، تاہم ایک مثال ایسی ہے جس میں پولیس نےتوہین مذہب کے مبینہ الزام میں ایک فرد کو مجمع کے ہاتھوں ہلاک ہونے سے بچایا۔

رپورٹ کے مطابق اگست میں وزارت داخلہ نے پنجاب کی صوبائی حکومت کو ایک این جی او سینٹر فار سوشل جسٹس (CSJ) کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا۔

اس کارروائی کی بنیاد وہ رپورٹ تھی جو اس این جی او نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں جمع کرائی تھی۔ اس میں جبری تبدیلیٔ مذہب کے واقعات کو بیان کیا گیا تھا۔ میڈیا کے مطابق حکومت نے این جی او کی رپورٹ کو "حکومت مخالف پروپیگنڈہ" قرار دیا۔

رپورٹ کے مطابق این جی اوز نے اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا کہ مذہبی اقلیتی برادریوں خصوصاً ہندوؤں اور مسیحیوں کی نوجوان خواتین اور لڑکیوں کو اغوا کرنے، زبردستی مذہب تبدیل کرنے اور زبردستی شادی کرنے کی کوششوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کا شکار لڑکیوں کی کہانی

محکمۂ خارجہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ این جی او سینٹر فار سوشل جسٹس نے 2022 کے دوران شادی کے ذریعے نوجوان خواتین اور لڑکیوں کی زبردستی تبدیلیٔ مذہب کے 124 واقعات درج کیے۔ پچھلے سال میں تنظیم کے مطابق 78 کیسز کے مقابلے میں یہ اضافہ 59 فی صد ہے۔

رپورٹ کے مطابق احمدیوں، ہندو اور مسیحیوں کے مقدس مقامات، قبرستانوں اور مذہبی علامتوں پر حملوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ سول سوسائٹی گروپس اور کچھ مذہبی رہنما مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے رہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی سفارت خانے کے عہدے داروں نے پاکستان کی سول سوسائٹی کے رہنماؤں، ماہرین اور صحافیوں سے ملاقاتیں کیں تاکہ مذہبی آزادی کے مسائل کے بارے میں ایسی معلومات اکٹھی کی جائیں جو میڈیا میں سامنے نہیں آئیں۔

انہوں نے دیگر سفارت خانوں کے نمائندوں، مذہبی برادریوں کے رہنماؤں، این جی اوز اور مذہبی آزادی کے مسائل پر کام کرنے والے قانونی ماہرین سے بھی ملاقاتیں کیں تاکہ مذہبی گروہوں کے درمیان احترام کو بڑھانے اور بات چیت میں پیش رفت کے طریقوں پر تبادلۂ خیال کیا جا سکے۔

اس قسم کی رپورٹوں پر پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا ماضی میں ردعمل رہا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ یہ قدرے متعصبانہ اور سیاست زدہ ہیں۔‘

پاکستان کی حکومت ماضی میں ان رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہتی رہی ہے کہ پاکستان میں ہر کسی کو مذہبی آزادی حاصل ہے جب کہ آئینِ پاکستان بھی ملک میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ دیتا ہے۔

پاکستان کو پہلی بار 2018 میں "خاص تشویش والے ملک" کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔

پاکستان کا ردِعمل

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے امریکی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے حقائق کے برعکس قرار دیا ہے۔

جمعرات کو دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میں مذہبی آزادی سے متعلق امریکی رپورٹ بے بنیاد دعوؤں پر مبنی ہے جسے پاکستان مسترد کرتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان جیسی خود مختار ریاست کے اندرونی معاملات سے متعلق ایسی غلط رپورٹنگ بے معنی اور غیر ذمے دارانہ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے مذہبی تنوع اور سماجی ڈھانچے پر فخر ہے۔ پاکستان کا آئین کسی بھی عقیدے سے قطع نظر تمام شہریوں کی آزای اور اُن کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔

ممتاز زہرہ بلوچ کے بقول پاکستان کی آزاد عدلیہ معاشرے کے ہر شہری کو دیے گئے حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مذہبی آزادیوں اور اقلیتوں کے حقوق کو فروغ دینے کے لیے امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعمیری تعاون کیا ہے۔

محکمۂ خارجہ کی بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سالانہ رپورٹ کےدیگر نکات

بلنکن نے پیر کو کہا کہ دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے بارے میں محکمہ خارجہ کے تازہ ترین سروے سے پتا چلتا ہے کہ دنیا بھر میں حالات اور بھی سنگین ہوئے ہیں اور نئے پریشان کن رجحانات بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "دنیا کے بہت سے حصوں میں حکومتیں مذہبی اقلیتوں کو تشدد، مار پیٹ، غیر قانونی نگرانی اور نام نہاد تعلیم کے کیمپوں سمیت متعدد طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے نشانہ بنا رہی ہیں۔"

Your browser doesn’t support HTML5

چین کی ایغور اقلیت کے حق میں اکثرمسلم ممالک آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟

بلنکن نے چین کے صوبہ سنکیانگ میں مسلم ایغور اقلیتی گروہ کے خلاف زیادتیوں پر زور دیا، ایک ایسا ملک جسے بلنکن کے خطاب سے پہلے ایک بریفنگ میں محکمہ خارجہ کے ایک سینئر اہلکار نے "دنیا میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی بدترین پامالی" کرنے والوں میں سے ایک سے تعبیر کیاتھا۔

بلنکن نے ایران کی اسلامی حکومت کے جبر اور پابندیوں پر بھی بات کی۔

اُن کا کہنا تھا کہ "ایران بھر کے لوگ، نوجوان خواتین کی قیادت میں، اپنے انسانی حقوق بشمول مذہبی آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے پرامن احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خاص طور سے مہسا امینی کے قتل کی وجہ سے جسے نام نہاد اخلاقیات پولیس نے گرفتار کیا تھا کیوں کہ اس نے حجاب کے ذریعہ اپنے بالوں کو مکمل طور پر نہیں ڈھانپا تھا۔"

Your browser doesn’t support HTML5

'چین میں لوگ حراستی کیمپوں کے بارے میں بات نہیں کرسکتے'

محکمۂ خارجہ کی رپورٹ میں ایران میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے گروپوں کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئےکہا گیا ہے کہ امینی کی موت کے بعد 2022 میں، سرکاری سیکیورٹی فورسز نے 69 بچوں سمیت 512 مظاہرین کو ہلاک کیا۔ 19 ہزار 204افراد کو گرفتار کیا اور مظاہروں سے منسلک کم از کم ایک شخص کو پھانسی دے دی گئی۔

بھارت

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے کہا ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ کا بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت بھارت کو "خاص تشویش والے ممالک" کی فہرست میں شامل نہ کرنا آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔

اگرچہ اس سروےمیں جسے قانون کے مطابق سالانہ مرتب کرنا اور کانگریس کو پیش کرنا ضروری ہے، بھارت میں مذہبی آزادی کی صورتِ حال کے بارے میں متعدد خدشات اور تشویش کا اظہار کیاگیا ہے۔ تاہم اس سال محکمۂ خارجہ نے بھارت کوشدید مذہبی خلاف ورزیوں کے لیے "خاص تشویش کا ملک" نامزد نہیں کیا ہے۔

SEE ALSO: گائے کے ذبیحہ میں مسلمانوں کو پھنسانے کے الزام میں ہندو تنظیم کے چار ارکان گرفتار

بھارت کے خلاف فہرست میں شامل مسائل میں متعدد ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے خلاف قانونی پابندیاں، مسلمانوں کے خلاف منظم طور پر امتیاز کے الزامات، اور مذہبی اقلیتوں پر حملے شامل ہیں۔

اس میں گائے کے ذبیحہ یا گائے کے گوشت کی تجارت کے الزامات کی بنیاد پر "گئو رکھشا"کرنے والوں کی جانب سے اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات بھی شامل ہیں۔

محکمۂ خارجہ کے ایک سینئر اہلکار سے جب پیر کی بریفنگ میں اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ "ہم (بھارتی)حکومت کے تشدد کی مذمت کرنےکے لیے اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف غیر انسانی بیان بازی کرنے والے تمام گروہوں کو جواب دہ ٹھہرانے کے لیے حوصلہ افزائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔"

بلنکن نے پیر کو یہ بھی کہا کہ پوری دنیا میں، پیش رفت کی مثالیں بھی ملی ہیں جس میں بیلجیم کی جانب سے اپنی بدھ اقلیت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے، برازیل میں قانون سازوں کی جانب سے افریقی-برازیلی مقامی کمیونٹیز کے لیے مذہبی آزادی کی ضمانتیں اور مختلف ممالک میں اسلامو فوبیا اور اسلام دشمنی سے نمٹنے کے لیے کو ششوں کا آغاز شامل ہے۔