رسائی کے لنکس

گائے کے ذبیحہ میں مسلمانوں کو پھنسانے کے الزام میں ہندو تنظیم کے چار ارکان گرفتار


ایک ہندو مذہبی گروپ 2021 میں ، مسلمانوں کے عید الاضحی کے تہوار سے پہلے، کولکتہ میں گائے کے ذبیحہ کے خلاف مہم چلا رہا ہے، بھارت میں عید الاضحی کے تہوار کے دوران لاکھوں گائیوں کی قربانی دی جاتی ہے۔ (شیخ عزیز الرحمن/وی او اے)
ایک ہندو مذہبی گروپ 2021 میں ، مسلمانوں کے عید الاضحی کے تہوار سے پہلے، کولکتہ میں گائے کے ذبیحہ کے خلاف مہم چلا رہا ہے، بھارت میں عید الاضحی کے تہوار کے دوران لاکھوں گائیوں کی قربانی دی جاتی ہے۔ (شیخ عزیز الرحمن/وی او اے)

شمالی بھارت کی ریاست اتر پردیش میں پولیس نے بدھ کو دائیں بازو کی ایک ہندوتنظیم کے چار ارکان کو اس الزام کے بعد گرفتار کیا کہ انہوں نے آگرہ شہر کے قریب ایک گائے کو ذبح کیا اور بظاہر مسلمانوں کے خلاف دشمنی کو ہوا دینے اور کچھ مسلمانوں کو مقدمے میں پھنسانے کی کوشش کی۔

گائے کے ذبیحہ پر جسے ہندوؤں میں مقدس سمجھا جاتا ہے ، اتر پردیش سمیت کئی بھارتی ریاستوں میں پابندی ہے، جہاں جرم ثابت ہونے پر 10 سال تک قید اور تقریباً پانچ لاکھ روپئے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔

آگرہ کے ایک اسسٹنٹ پولیس کمشنر راکیش کمار سنگھ نے 8 اپریل کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہندو دائیں بازو کے گروپ آل انڈیا ہندو مہاسبھا یا اے آئی ایچ ایم کے سینئر لیڈر جتیندر کشواہا نے پولیس میں شکایت درج کروائی جس میں الزام لگایا گیا کہ 30 مارچ کو صبح سویرے اس نےچار مسلمان مردوں کو ایک گائے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا تھا۔

بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں ہر ہفتے لگنے والی مویشی منڈی۔ فائل فوٹو
بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں ہر ہفتے لگنے والی مویشی منڈی۔ فائل فوٹو

اس گروپ نے ’’مسلمان ملزموں، محمد رضوان اور ان کے تین بیٹوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک مظاہرہ بھی کیا۔ پولیس نے رضوان اور اس کے بیٹوں کو یوپی پریوینشن آف گاؤ ذبیحہ ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا۔ تاہم تفتیش کے بعد، پولیس نے طے کیا کہ یہ چار وں مسلمان اس کیس میں ملوث نہیں تھے اور یہ کہ اے آئی ایچ ایم کے ترجمان سنجے جاٹ نے گائے کو ذبح کرنے کی سازش رچائی تھی۔

8 اپریل کو پولیس نے اعلان کیا کہ چار وں مسلمان بے قصور ہیں اور ہندو کارکن مجرم ہیں اور انہیں گرفتار کیا جائے گا۔سنگھ نے بھارتی اخبار دی ٹیلی گراف کو بتایا۔ ’’سنجے جاٹ اصل سازش کار ہے۔ اس کے پیروکاروں اور دوستوں نے ایک گائے کو ذبح کیا، اور جتیندر کشواہا سے محمد رضوان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کو کہا ۔ بعد میں، تفتیش سے معلوم ہوا کہ نامزد ملزمان کا جرم سے کوئی تعلق نہیں تھا‘‘ ۔

فون کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جیتندر، سنجے اور کچھ دوسرے گائے کے ذبیحہ کے مقام کے قریب تھے، تاہم پولیس میں درج کروائی جانے والی شکایت میں ان لوگوں کا نام نہیں تھا۔

کال ریکارڈ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جن افراد پر الزام لگایا گیا تھا وہ ایک ماہ سے زیادہ عرصے میں اس جگہ نہیں گئے تھے۔

آگرہ میں ایک نامعلوم پولیس افسر نے دی ٹیلی گراف کو بتایاکہ حالیہ برسوں میں، بھارت میں رام نومی کے تہوار کے دوران، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اکثر فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنے کے لیے گائے کو رام نومی کے موقع پر ذبح کیا گیا تھا۔

تاہم سنجے جاٹ کا اصرار ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔ ’’میرے کچھ دشمن اس معاملے میں مجھے اور میرے کچھ ساتھیوں کو جھوٹےالزام میں پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔

جاٹ نے مقامی ٹی وی چینلز کو بتایا کہ اگر اس کیس کی صحیح طریقے سے تفتیش نہ کی گئی تو ہم احتجاجی مظاہرے کریں گے۔

دوسری طرف سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ دائیں بازو کی ہندو تنظیم نے مسلمانوں کو پھنسانے اور ہندوؤں کو ان کے خلاف اکسانے کی کوشش میں گائے کو ہلاک کرنے کا بندوبست کیا تھا۔

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور سماجی کارکن اپوروانند کا کہنا ہے کہ اے آئی ایچ ایم کے لیڈروں کے حکم پر ایک گائے کو ذبح کرنے کی خبر کا مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنا ہے اور اسے مسلمانوں کے خلاف تشدد کے بہانے کے طور پر استعمال کرنا ہے۔

انہوں نے وہ او اے کو بتایا۔ ’’یہ ایک طویل عرصے سے ہندو بالادستی پسند تنظیموں کا طریقہ کار رہا ہے۔ ان کی جانب سے مندروں میں گائے کا گوشت پھینکنے کے متعدد واقعات ہیں۔ مختلف گروپوں کے ارکان بھارت میں مختلف مقامات پر پاکستان کا قومی پرچم لگاتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔ انہوں نے تمام کارروائیوں کا الزام مسلمانوں پر لگایا، تاکہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا جا سکے‘‘۔

کولکتہ میں مقیم سماجی کارکن مالے تیواری نے کہا کہ بھارت میں دائیں بازو کے ہندو گروپ کے کارکنوں کی طرف سے نقلی جھنڈے لگانےکی کارروائیوں کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔

بقول ان کے،’’اس طرح کے نقلی جھنڈے کی کارروائیوں کے ذریعے، دائیں بازو کے ہندو گروپ کا مقصد، جو بھارت کی حکمران بی جے پی کے سپاہیوں کی طرح کام کرتے ہیں، ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف پولرائز کرنے کے لیے مسلم مخالف جذبے کو ہوا دینا ہے۔ بھارت ہندو اکثریت والا ملک ہے۔ فرقہ وارانہ خطوط پر پولرائزیشن ہندو قوم پرست بی جے پی کو اکثریتی برادری سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں بہت مدد دیتی ہے‘‘۔

تیواری نےکہا، ’’گائے ذبح کرنے کے مقدمات میں، مسلمانوں کو عام طور پر جیل اور جرمانے کی سخت ترین سزا سنائی جاتی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ آیا آگرہ کیس میں دائیں بازو کے ہندو کارکنوں کو بھی اسی سطح کی سزا دی جاتی ہے یا نہیں‘‘ ۔

(رپورٹ شیخ عزیز الرحمان، وائس آف امریکہ)

XS
SM
MD
LG