خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی ایک عدالت میں توہینِ مذہب کیس میں نامزد ایک ملزم کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق فائرنگ کا واقعہ ایڈیشنل سیشن جج شوکت اللہ کی عدالت میں بدھ کو پیش آیا۔
حکام کے مطابق تھانہ سربند کی پولیس پشاور کے علاقے اچینی بالا کے رہائشی طاہر نسیم کو عدالت میں پیشی کے لیے جوڈیشل کمپلیکس لائی تھی جہاں پر ان کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمے کی سماعت ہونا تھی۔
عینی شاہدین کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج شوکت اللہ کی عدالت میں کیس کی سماعت جاری تھی جب اس دوران ایک شخص نے پستول نکال کر جج کے سامنے ملزم طاہر احمد پر فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ سے طاہر نسیم موقع پر ہلاک ہو گئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پولیس نے فائرنگ کرنے والے ملزم کو واقعے کے فوری بعد کمرۂ عدالت سے حراست میں لے کر قانونی کارروائی اور تفتیش کے لیے تھانے منتقل کردیا ہے۔ پولیس کے مطابق خالد نامی ملزم پشاور کا ہی رہائشی ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق ابتدائی تفتیش میں ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے طاہر نسیم کو توہینِ مذہب کی وجہ سے ہی قتل کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق فائرنگ کرنے والے ملزم نے پولیس کو بتایا ہے کہ انہیں مذکورہ شخص کو قتل کرنے کے حوالے سے خواب آیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق مقتول طاہر نسیم نے سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر آخری نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس پر ان کے خلاف 2018 میں تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 195 سی کے تحت توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
واقعے کے بعد صحافیوں سے مختصر گفتگو میں کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) محمد علی گنڈاپور نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور واقعے کی مزید تفتیش جاری ہے۔
دوسری جانب اتنے حساس مقدمے میں مسلح شخص کے عدالت آنے پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
ایک بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کمرہ عدالت میں ہونے والے اس قتل کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین منسوخ کیے جائیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ ''آج صبح پشاور سیشنز کورٹ میں ذہنی معذوری کے شکار، طاہر احمد کا قتل ایک مزید واقعہ ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین خود ساختہ محافظوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی ملزم کو دھمکی دیں یا سرے سے مار دیں''۔
دیگر حقوق انسانی کے گروپوں نے کہا ہے کہ ''توہین مذہب کے الزامات عمومی طور پر اقلیتوں، خصوصی طور پر احمدی کمیونٹی کے خلاف لگائے جاتے ہیں، جن کا مقصد اپنا ذاتی حساب لینا یا پھر مذہبی اقلیتوں کو ہدف بنانا ہوتا ہے''۔