بلوچستان کی ذائقے دار ’سجی‘

جب لکڑی کا زیادہ حصہ جل کر انگارے بن جاتا ہے تو اس کے بعد ذبح کئے گئے نازک دُنبے یا بکرے کی ران، دستہ یا مُرغی لا کر ایک سیخ کو گوشت کے درمیان سے گزار کر اس کو انگاروں کے چاروں طرف لگایا جاتا ہے

بلوچستان کی ’سجی‘ اپنے ذائقے اور لذت کی وجہ سے پورے ملک میں شہرت رکھتی ہے۔ سجی اگرچہ ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی تیار کی جاتی ہے، لیکن کوئٹہ میں تیار کی جانے والی سجی اپنی مثال آپ ہے۔

سجی بنانے والے سب سے پہلے لکڑیاں ایک دائرے میں لگا لیتے ہیں۔ اس کے بعد ان لکڑیوں کو آگ لگائی جاتی ہے۔ جب لکڑی کا زیادہ حصہ جل کر انگارے بن جاتا ہے تو اس کے بعد ذبح کئے گئے نازک دُنبے یا بکرے کی ران، دستہ یا مُرغی لا کر ایک سیخ کو گوشت کے درمیان سے گزار کر اس کو انگاروں کے چاروں طرف لگایا جاتا ہے۔

مُرغی کا گوشت گھنٹے ڈیڑھ میں، جبکہ دُنبہ یا بکرا دو یا ڈھائی گھنٹے میں تیار ہو جاتا ہے؛ جس کے بعد، ’سجی‘ چپاتی یا تندوری نان اور چٹنی کے ساتھ کھانے کے لئے پیش کر دی جاتی ہے۔

سجی فروخت کرنے والے ایک ہوٹل کے مالک، اللہ بخش لہڑی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ سجی پہلے صرف کوئٹہ یا بلوچستان کے دیگر علاقوں سے آنے والے لوگ پسند کرتے تھے، لیکن اب جو بھی ملک کے دوسرے بڑے یا چھوٹے شہروں سے کوئٹہ آتا ہے، وہ سجی کھائے بغیر نہیں جاتا۔

اور، آجکل چونکہ سردی کے دن ہیں، اِن دنوں میں سجی خوب کھائی جاتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ سجی کا کاروبار فروغ پا رہا ہے۔ پہلے کوئٹہ میں جناح روڈ پر سجی ملتی تھی۔ لیکن، اب شہر کے اکثر ہوٹلوں پر سجی تیار کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، کراچی، اسلام آباد، لاہور اور چند دیگر شہروں میں بھی سجی تیار کی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت مرغی کی سجی 600 اور بکرے یا دُنبے کی ران 1000 روپے تک فروخت کی جاتی ہے۔

سجی کھانے والے، محمد بشیر کا کہنا ہے کہ وہ مہینے میں ایک بار ضرور سجی کھانے آتے ہیں۔ سجی انہوں نے اسلام آباد میں بھی کھائی ہے۔ لیکن، بقول اُن کے، وہاں کی سجی کا ذائقہ کوئٹہ کی سجی کے برابر نہیں ہے۔