پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں حکومت کے حامی قبائلی رہنماؤں پر ہلاکت خیز حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور جمعہ کو ایک تازہ واقعے میں ایک اور قبائلی رہنما کو دیسی ساختہ بم حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔
قبائلی انتظامیہ میں شامل عہدیداروں نے تصدیق کی ہے کہ ملک بہلول کو چمرقند کے علاقے میں دیسی ساختہ بم سے نشانہ بنایا۔
مقامی اتنظامیہ نے جائے وقوع پر پہنچ کر وہاں سے شواہد جمع کیے لیکن تاحال اس کے محرکات کے بارے میں تفصیل سامنے نہیں آ سکی ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ اس قبائلی علاقے میں ایک روز قبل بھی ایک قبائلی رہنما کو ہلاک کر دیا گیا تھا جب کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران باجوڑ کے مختلف علاقوں میں دیسی ساختہ بم حملوں میں کم از کم تین دیگر قبائلی رہنماؤں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔
جمعہ کو پیش آنے والے واقعے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے منسلک جماعت الاحرار کے شدت پسندوں نے قبول کی ہے۔
باجوڑ میں 2007ء میں القاعدہ سے منسلک طالبان نے اپنی مضبوط پناہ گاہیں قائم کر لی تھیں جن کے خلاف پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے 2008ء کے اواخر میں آپریش شروع کیا اور تقریباً چھ ماہ تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں علاقے کو شدت پسندوں سے تقریباً پاک کر دیا تھا۔
تاہم بہت سے شدت پسند یہاں سے دیگر قبائلی علاقوں اور سرحد پار افغانستان فرار ہو گئے تھے جس کے بعد حالیہ برسوں میں باجوڑ میں وقتاً فوقتاً شدت پسند کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔
پاکستانی فوج نے گزشتہ سال قبائلی علاقے شمالی وزیرستان اور خیبر میں شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں شروع کی تھیں جس کے بعد باجوڑ کے کئی علاقوں سے بھی مقامی قبائلیوں نے محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی کی۔
تاہم مقامی قبائل کی طرف سے اس علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف فورسز کا ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیے جانے کے بعد باجوڑ میں آپریشن شروع نہیں کیا گیا۔
دریں اثناء قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ملحقہ ضلع بنوں میں دو نوجوانوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں برآمد ہوئی ہیں لیکن ان کے قتل کے محرکات کے بارے میں تاحال کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔