باجوڑ: سابق سینیٹر کی حملے میں ہلاکت پر مقامی افراد کا احتجاج

سینیٹر ہدایت اللہ تین جولائی کو ہونے والے حملے میں جانبر نہیں ہوسکے تھے۔

  • بم حملے میں ہلاک ہونے والے سابق سینیٹر ہدایت اللہ خان کا تعلق ایک بااثر سیاسی گھرانے سے تھا۔
  • سابق سینیٹر کے گاؤں میں ہونے والے احتجاج کے شرکا نے امن کے حق اور دہشت گردی کے خلاف میں نعرے بازی کی۔
  • کالعدم ٹی ٹی پی نے حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

پشاور — پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع باجوڑ میں ایک روز قبل سابق سینیٹر سمیت پانچ افراد کی بم دھماکے میں ہلاکت کے بعد جمعرات کے روز فضاء سوگوار رہی جب کہ ان کے آبائی علاقے ناوگئی میں اس واقعے کے خلاف ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں بڑی تعداد نے لوگوں نے شرکت کی ہے۔

باجوڑ کے معروف اور مؤثر سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر ہدایت اللہ خان کی گاڑی کو نامعلوم افراد نے بدھ کی سہ پہر دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا تھا۔ سابق سینیٹر سرحدی علاقے ڈمہ ڈولہ سے واپس آ رہے تھے۔

بم دھماکے کے نتیجے میں ہدایت اللہ دو دیگر ساتھیوں سمیت موقعے پر ہلاک ہو گئے تھے جب کہ دیگر دو افراد زخموں کی تاب نہ لا کر اسپتال میں دم توڑ گئے تھے۔

بم دھماکے میں ہدایت اللہ خان کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔

اطلاعات کے مطابق ہدایت اللہ خان اپنے بھتیجے کی انتخابی مہم کے سلسلے میں ڈمہ ڈولہ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرنے گئے تھے۔

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے واجد باجوڑی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد ظاہری طور پر ضلع بھر میں صورتِ حال پر سکون اور نارمل دکھائی دیتی ہے مگر اندرونی طور پر لوگ خوف و ہراس کا شکار ہیں۔

ان کے بقول اس واقعے سے 11 جولائی کو خیبر پختونخوا اسمبلی کی نشست پی کے 22 پر ہونے والے ضمنی انتخابات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

SEE ALSO: باجوڑ میں دو دھماکے، سابق سینیٹر سمیت چھ افراد ہلاک

اس نشست پر تیسری بار انتخابات 11 جولائی کو ہوں گے جس میں خیبر پختونخوا کی حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں۔

واجد باجوڑی نے بتایا کہ ہدایت اللہ خان کے آبائی قصبے ناوگئی میں اس واقعے کے خلاف ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

اس ریلی میں شریک مظاہرین نے امن کے حق اور دہشت گردی کے خلاف نعرے لگائے۔

دیگر مقررین کے علاوہ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے قوم پرست سیاسی رہنما مولانا خان زیب نے دہشت گردی اور تشدد کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی۔

انہوں نے کہا کہ نہ صرف باجوڑ بلکہ خیبر پختونخوا میں امن و استحکام کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کیا جا رہا ہے۔

ان کے بقول اس سے پہلے کے سب آوازیں چپ کرا دی جائیں عوام کو اپنی خاموشی توڑنی چاہیے۔

باجوڑ پولیس نے بدھ کو ہونے والے واقعے کا مقدمہ درج کر دیا ہے لیکن ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں کی گئی ہے۔

SEE ALSO: پاکستان میں دہشت گردی پر رپورٹ: 'صرف طاقت کے استعمال سے تشدد کا خاتمہ ممکن نہیں'

فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ نے بدھ کی رات جاری کردہ بیان میں سیکورٹی فورسز کی ایک کارروائی میں ایک خطرناک دہشت گرد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

تاہم ہلاک ہونے والے دہشت گرد کی بدھ کے روز سابق سینیٹر ہدایت اللہ خان کے گاڑی پر حملے میں ملوث ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔

ادھر صدر مملکت، وزیرِ اعظم، خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی اور گورنر سمیت سیاسی جماعتوں کے عہدے داروں اور رہنماؤں نے سابق سینیٹر ہدایت اللہ پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

ابھی تک کسی فرد یا گروپ نے ہدایت اللہ خان اور ان کے ساتھیوں پر بم حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔

تاہم حکام اور قبائلی رہنما اسے دہشت گردی کا واقع قرار دے رہے ہیں جب کہ سرحد پار افغانستان میں روپوش کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنے ایک بیان میں اس بم حملے سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔

ادھر ایک اور قبائلی ضلعے اورکزئی میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے اپر اورکزئی بانڈہ سامہ ماموزئی چیک پوسٹ پر فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق پولیس اہلکاروں اور مبینہ عسکریت پسندوں کے درمیان کافی دیر تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔