سعودی عرب کے اتحادیوں نے پیر کے روز ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے، ایسے میں جب مظاہرین کی جانب سے تہران میں ملک کے سفارت خانے پر دھاوا بولے جانے کے بعد، سعودی عرب نے ایران کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بحرین اور سوڈان نے بھی ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے ہیں، جب کہ متحدہ عرب امارات نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح گھٹا دی ہے، اور تہران کے ساتھ سفیر کی جگہ ناظم الأمور کے درجے کے تعلقات باقی رہ گئے ہیں۔ سعودی عرب نے ایران آنے جانے والی تمام فضائی پروازیں منسوخ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس ترجمان، جوش ارنیسٹ نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ’کشیدگی‘ کی صورت حال کو کم کرنے پر زور دیتے ہوئے، تمام فریق سے تحمل برتنے کے لیے کہا ہے۔
تعلقات میں یہ تناؤ ہفتے کے روز سعودی عرب کی سنی حکومت کی جانب سے سرکردہ شیعہ عالم شیخ نمر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد بڑھا ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے 46 دیگر مجرموں کے ہمراہ النمر کی سزا پر عمل درآمد کے اعلان کے بعد، ایران میں برہم مظاہرین نے تہران میں سعودی سفارت خانے کے فرنیچر کی توڑ پھوڑ کی اور عمارت کو نذر آتش کیا، ساتھ ہی مظاہرین نے مشہد میں سعودی سفارت خانے کو آگ لگا دی۔
اِن حملوں میں کم از کم 40 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے، جن کے لیے ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ ’اِن کا کوئی جواز نہیں‘۔ تاہم، اُنھوں نے بھی النمر کو سزا دیے جانے کی مذمت کی ہے۔ عالم دین کی ہلاکت پر پیر کے روز تہران میں تقریباً 3000 مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔
سوڈان کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر رہا ہے، چونکہ تہران میں سعودی سفارت خانے پر ’وحشیانہ حملے‘ کیے گئے۔
متحدہ عرب امارات نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کر رہا ہے، کیونکہ ایران، بقول اُن کے، ’خلیج اور عرب مملکوں کے داخلی امور میں مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے، جو غیرمعمولی نہج تک پہنچ چکے ہیں‘۔
صومالیہ نے سعودی چوکیوں پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون کی ’صریح خلاف ورزی‘ ہے۔
سرکاری تحویل میں کام کرنے والے خبر رساں ادارے، بحرین نیوز ایجنسی (بی این اے) کی ایک خبر کے مطابق، بحرین نے ایران کے سفارت کاروں سے 48 گھنٹوں کے اندر اندر ملک چھوڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بحرینی پولیس نے النمر کی سزائے موت کے خلاف ہونے والے مظاہروں پر آنسو گیس کے گولے برسائے اور ہوائی فائرنگ کی۔ سعودی عرب نے اتوار کی شام گئے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے ایرانی سفارت کاروں کو دو دِن کے اندر اندر ملک چھوڑنے کے لیے کہا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابر انصاری نے پیر کی صبح بریفنگ کے دوران کہا کہ ایران سعودی عرب سے اپنے اہل کار واپس بلانے کا بندوبست کر رہا ہے، لیکن ابھی کوئی وہاں سے روانہ نہیں ہوا۔ اُنھوں نے سعودی عرب کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی اقدامات سے خطے میں تناؤ بھڑک اٹھا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ عبد الجبیر نے کہا ہے سنی اکثریت والا سعودی عرب شیعہ اکثریت والے ایران کو اپنے ملک یا پھر خطے کی سکیورٹی کو دھچکا پہنچانے کی اجازت نہیں دے گا۔
جبیر نے کہا ہے کہ سفارتی مشنز پر جاری حملے تمام بین الاقوامی سمجھوتوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بقول اُن کے، ’ہم اس بات کو قطعی طور پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی معاشرے میں ایسے انداز کی کوئی گنجائش نہیں جس میں دہشت گردی کی اجازت دی جائے، جو دہشت گردی کی حمایت یا دہشت گردی کا اقدام کرے‘۔
واشنگٹن میں، ایک بیان میں امریکی محکمہ ٴخارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ خطے بھر کے تمام سربراہان پر زور دیتا رہے گا کہ ’وہ تناؤ میں کمی لانے کے لیے مثبت اقدام کیے جائیں‘۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’صدر براک اوباما کی انتظامیہ سمجھتی ہے کہ بحران کے حل کے حوالے سے سفارتی تعلقات اور براہ راست گفتگو اب بھی ناگزیر ہے‘۔
اس سے قبل موصولہ اطلاعات کے مطابق، خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی صورتحال میں سعودی عرب کے بعد بحرین اور سوڈان نے بھی پیر کو ایران سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں جب کہ متحدہ عرب امارات نے سفارتی تعلقات کی سطح کو کم کرنے اور اپنے ملک میں ایرانی سفارتی عملے کو محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سعودی عرب میں ایک شیعہ عالمی دین کو سزائے موت دیے جانے کے بعد ہفتے کی شام مظاہرین نے ایران میں سعودی سفارتخانے پر دھاوا بول کر وہاں آتشزنی اور توڑ پھوڑ کی تھی جس کے بعد سعودی عرب نے تہران سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلوا لیا تھا جبکہ ایرانی سفارتکاروں کو دو دن کے اندر سعودی عرب سے چلے جانے کو کہا تھا۔
سعودی عرب کے قریبی اتحادی اور ہمسایہ ملک نے بھی ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بحرین کے سرکاری خبر رساں ادارے ’بی این اے‘ کے مطابق حکومت نے ایرانی سفارتکاروں کو ملک سے 48 گھنٹے کے اندر چلے جانے کا کہا ہے۔
دوسری جانب مشرق وسطیٰ کے ایک اور اہم ملک اور سعودی اتحادی متحدہ عرب امارات کے سرکاری خبررساں ادارے ’ڈبلیو اے ایم‘ کے مطابق حکومت نے ایران سے تعلقات کی سطح کم کرنے اور سفارتکاروں کی تعداد محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔
’’متحدہ عرب امارات نے اسلامی جمہوریہ ایران کی سفارتی نمائندگی کم کر کے ناظم الامور کی سطح پر لانے اور ملک میں ایرانی سفارتکاروں کی تعداد کو کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
ادھر افریقہ کے ملک سوڈان نے بھی سعودی سفارتخانے پر حملے کے احتجاج میں ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سوڈان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’’تہران میں سعودی سفارتخانے اور مشہد میں اس کی قونصل خانے پر بیہمانہ حملے کے جواب میں سوڈان کی حکومت اسلامی جہوریہ ایران سے فوری تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتی ہے۔‘‘
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابر انصاری نے پیر کی صبح ایک پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ ایران سعودی عرب میں تعینات اپنے عملے کی واپسی کے انتظامات کر رہا ہے مگر ان میں سے کسی نے ابھی ملک نہیں چھوڑا۔ انہوں نے سعودی عرب کے فیصلہ پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ سعودی اقدامات خطے میں کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔