ایران کی وزارت خارجہ نے سعودی عرب کی طرف سے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے بعد پیر کو کہا کہ سعودی عرب نے سفارتخانے پر حملے کو کشیدگی میں اضافہ کرنے کا بہانہ بنایا ہے۔
وزارت نے کہا کہ ایران اپنے ملک میں موجود تمام غیر ملکی سفارتخانوں کی حفاظت کے لیے پرعزم ہے۔
سعودی عرب کی طرف سے شیعہ عالم شیخ نمر النمر کی سزائے موت پر عملدرآمد کے بعد اتوار کی صبح ایرانی مظاہرین نے تہران میں واقع سعودی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے تہران سے اپنا تمام سفارتی عملہ واپس بلا لیا تھا اور سعودی عرب نے اپنے ملک میں موجود ایرانی سفارتکاروں کو حکم دیا تھا کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔
مظاہرین نے سفارتخانے میں آتشزنی کی، فرنیچر توڑا جس کے بعد پولیس نے 40 کے قریب افراد کو گرفتار کر لیا۔
عمارت میں اس وقت کوئی سعودی سفارتکار موجود نہیں تھا۔ ایرانی حکام نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے شیخ نمر کی سزائے موت پر بھی تنقید کی۔
ٹیلی وژن پر اپنے بیان میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان حسین جابری انصاری نے کہا کہ ’’ایران نے وسیع پیمانے پر پیدا ہونے والے جذباتی رد عمل کو قابو کرنے کے لیے اپنی (سفارتی) ذمہ داریوں کے مطابق عمل کیا ہے۔‘‘
’’سعودی عرب کشیدگی کو طول دے کر فائدہ اٹھاتا ہے ۔۔۔ (اس نے) اس واقعے کو کشیدگی کو ہوا دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔‘‘
حسین انصاری کا کہنا تھا کہ ایرانی سفارتکار ابھی سعودی عرب سے نہیں نکلے۔ انہیں اتوار کو ملک چھوڑنے کے لیے 48 گھنٹے دیے گئے تھے۔
سزا پر رد عمل
لبنان کے ایک اہم شیعہ عالم نے بھی شیخ نمر کی سزائے موت کے خلاف رد عمل کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ شیخ عبدالعامر کابلان نے سزائے موت کے بارے میں کہا کہ یہ ’’انسانی سطح پر جرم ہے اور اس کے آنے والے دنوں میں نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘
بحرین میں بھی مظاہرے کیے گئے جہاں پولیس نے مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ لندن میں سعودی سفارتخانے کے باہر اور بھارت میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ وہ شیخ نمر کو سزائے موت دیے جانے پر ’’سخت مایوس‘‘ ہوئے ہیں اور کہا کہ سزاؤں کے ’’ردعمل میں تحمل اور برداشت‘‘ کا مظاہرہ کیا جائے۔