عالمی مالیاتی بحران سے ایشیا بڑی مضبوطی سے باہر نکل آیا ہے ۔ لیکن جیسے جیسے بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے ایشیائی معیشتوں میں بھاری مقدار میں سرمایہ لگانا شروع کیا، افراطِ زر اور معیشت میں اتار چڑھاؤ کےبارے میں تشویش پیدا ہوئی۔ اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ 1997 کے مالیاتی بحران کے تجربے سے ایشیا کو اس چیلنج کا سامنا کرنے میں مدد ملی ہے ۔
امریکہ اور یورپ میں شرح سود کم ہے۔ اس لیئے بین الاقوامی سرمایہ کار زیادہ منافع کی تلاش میں، ایشیا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ بنگکاک کے Kasikornbank کی اقتصادی ماہر Nalin Chutchotitham کو توقع ہے کہ مختصر مدت کے لیئے غیر ملکی سرمایہ آتا رہے گا۔ ان کے الفاظ ہیں:
“چونکہ سرمایہ مسلسل آرہا ہے اس لیئے ایشیا میں سرمایہ حاصل کرنے کی لاگت کم ہوگئی ہے اور یہ اس معاملے کا مثبت پہلو ہے۔”
اس طرح کمپنیوں کو اپنے کاروبار کو وسعت دینے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ اس کے علاوہ ایشیا کے ملکوں کی کرنسیوں کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے اور درآمد شدہ خام مال سستا ہو جاتا ہے۔تا ہم، اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ اگر کسی ملک کی کرنسی مضبوط ہو، تو اس کی بر آمدات مہنگی پڑتی ہیں اور یہ ایشیا کی بر آمدات پر مبنی معیشتوں کے لیڈروں کے لیئے تشویش کی بات ہے ۔
لیکن علاقے کے اقتصادی ح ماہرین اس سرمایے سے پیدا ہونے والے خطرات کے بارے میں انتباہ کرتے ہیں۔ بہت زیادہ پیسہ محدود اثاثوں کی تلاش میں ہوتا ہے تو افراطِ زر بڑھ جاتا ہے ۔ چین میں جب نومبر میں اشیاء کی قیمتیں دو برس سے زیادہ عرصے میں سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئیں تو حکومت نے قیمتوں پر کنٹرول کرنے کا عہد کیا۔
ایک اور بڑی پریشانی یہ ہے کہ کہیں سرمایہ اچانک واپس نہ نکال لیا جائے۔ 1990 کی دہائی کے وسط میں، سرمایے کی مانگ میں آج کل کی طرح اضافہ ہوا تھا۔ پھر تشویش میں مبتلا سرمایہ کاروں نے بہت سے ایشیایئ ملکوں سے اچانک اپنا پیسہ نکال لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان ملکوں کی کرنسیوں کی قدر اچانک کم ہو گئی، اور کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور جنوبی کوریا تھے۔ Kasikornbank کے Kobsidithi Silpachai کہتے ہیں ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ ملک میں پیسہ آئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ مختصر مدت کے لیئے آرہا ہے یا لمبے عرصے کے لیئے ۔ اقتصادی ماہرین ، بنکاروں اور پالیسی سازوں کو مختصر مدت کے لیئے آنے والے پیسے سے پریشانی ہوتی ہے ۔ اس پیسے کو hot money بھی کہتے ہیں اور یہ عام طور سے شیئرز یا بونڈز میں لگایا جاتا ہے اور یہ بڑی تیزی سے ملک سے باہر جا سکتا ہے ۔ دوسری طرح ، لمبی مدت کی سرمایہ کاری فیکٹریوں ، فارمز اور بنیادی سہولتوں کے ڈھانچے میں ہوتی ہے اور اس میں اچانک تبدیلی کا امکان کم ہوتا ہے ۔
انڈونیشین انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز کے اقتصادی تجزیہ کار Siwage Dharma Negara کو تشویش ہے کہ انڈونیشیا میں آج کل جو پیسہ آ رہا ہے اس کا مقصد شیئرز میں پیسہ لگانا اور تیزی سے منافع کمانا ہے۔ ان کا کہنا ہے:
“اگر آپ مالیاتی اعداد و شمار کا جائزہ لیں، تو پتہ چلے گا کہ جو بھی سرمایہ آرہا ہے وہ اسٹاک مارکٹ، سرکاری بانڈز اور سینٹرل بنک کے سرٹیفیکٹ خریدنے کے لیئے ہے، لیکن ان چیزوں کااصل معیشت سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے ۔”
اگرچہ سرمایے کی آمد کے بارے میں تشویش موجود ہے، لیکن اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ ایشیا نے 1997 کے مالی بحران سے سبق سیکھا ہے۔ Fredrico Gil Sander تھائی لینڈ میں ورلڈ بنک میں ماہر معاشیات ہیں، وہ کہتے ہیں کہ 1997 کے بحران کے بعد ایشیائی معیشتیں اچانک تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیئے بہتر طور پر تیار ہیں۔ بہت سے ایشیائی ملکوں کی حکومتوں نے ، جیسے تھائی لینڈ نے، غیر ملکی کرنسیوں کے ذخائر محفوظ کر لیئے ہیں تا کہ غیر ملکی سرمایے کے اچانک واپس چلے جانے اور زر مبادلہ کی شرح میں اچانک تبدیلیوں سے نمٹا جا سکے ۔ وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ چھہ مہینوں میں جتنا پیسہ آیا ہے، وہ کل واپس چلا جائے، تو بھی زر مبادلہ کی شرح پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ سینٹرل بنک نے کافی سرمایہ محفوظ کر رکھا ہے۔
چین میں حکومت کوشش کر رہی ہے کہ فاضل پیسے کو مالیاتی نظام میں جذب کر لیا جائے ۔ حکومت نے بنکوں کو حکم دیا ہے کہ وہ قرض کی رقم کو محدود کر دیں، محفوظ سرمایے میں اضافہ کر یں، اور ممکن ہو تو شرح سود میں مزید اضافہ کر دیں۔
ایشیائی حکومتیں افراط ِ زر کو قابو میں رکھنے اور پیسے کی ایسی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے اقدام کر رہی ہیں جس سے معیشت میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے ۔ دوسری طرف، توقع ہے کہ اس علاقے میں اقتصادی ترقی کی رفتار سست رہے گی۔ تاہم ، ماہرین معاشیات اور منڈی کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ علاقہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیئے بدستور پُر کشش رہے گا۔