برطانیہ کے نئے وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے نئی حکومت کے پہلے ہی روز اشارہ دیا کہ یورپ کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات میں مزید قربت نہیں آئے گی۔ ’’ہمارے درمیان اس بارے میں متفق ہونا مشکل نہیں تھا کہ ہماری دونوں پارٹیوں میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتی کہ ہم اپنے مزید اختیارات یورپی یونین کے حوالے کریں۔‘‘
انھوں نے کہا کہ دونوں پارٹیوں نے اتفاق کیا کہ برطانیہ کے یورو کرنسی میں شامل ہونے کی کسی تجویز پر غور نہیں کیا جائے گا۔ خیال یہ تھا کہ یورپ کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات ان دونوں پارٹیوں کے درمیان مخلوط حکومت کی تشکیل میں رکاوٹ بنیں گے۔ لبرل ڈیموکریٹس یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلقات کے حق میں رہے ہیں۔
لیکن برطانیہ کی یونیورسٹی آف برسٹل کےمارک وکہم جونز کہتے ہیں کہ یورپ کے ساتھ تعلقات میں قدامت پسندوں کا شک و شبہ غالب آ جائے گا۔’’ممکنہ طور پر بڑی تبدیلی یورپ کے ساتھ تعلقات میں آئے گی جو پہلے ہی بہت زیادہ مثبت نہیں ہیں لیکن میرے خیال میں قدامت پسندوں کے زمانے میں اس رجحان میں اور اضافہ ہو گا۔ قدامت پسندوں میں یورپ کے بارے میں زیادہ گرم جوشی نہیں ہے اور لبرل ڈیموکریٹس ان کے ایجنڈے کو قبول کرنے پر مجبور ہوں گے ۔‘‘
وزیرِ خارجہ ہیگ نے کہا کہ ان کی حکومت ترقی پذیر معیشتوں سے ، خاص طور سے جنوبی ایشیا، شمالی افریقہ اور لاطینی امریکہ سے قریبی تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے کیوں کہ یہی علاقے اقتصادی طور پر سرگرم ہیں۔ انھوں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ قدامت پسندوں کی حکومت کے تحت، برطانیہ کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بھی کچھ تبدیلی آ سکتی ہے ’’ڈیوڈ کیمرون نے اور میں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ ہم امریکہ کے ساتھ غلامانہ نہیں مگر ٹھوس تعلقات چاہتے ہیں ۔بلا شبہ ہم ہر چیز پر متفق نہیں ہوں گے۔ لیکن انٹیلی جینس اور نیوکلیئر امور میں، بین الاقوامی ڈپلومیسی میں اور ہم افغانستان میں جو کچھ کر رہے ہیں ان سب چیزوں میں امریکہ کے ساتھ ہماری شراکت دار ی نا گزیر ہے ۔‘‘
لندن اسکول آف اکنامکس کے پروفیسرمائکل کوکس کہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کچھ فاصلہ پیدا کرنا برطانیہ کے عام موڈ کے مطابق ہے ۔’’عراق کی جنگ کے دوران ٹونی بلیئر کے جارج ڈبلو بُش سے جو تعلقات تھے ان کے حوالے سے گذشتہ چند مہینوں بلکہ برسوں سے یہ باتیں ہوتی رہی ہیں کہ امریکہ کے ساتھ برطانیہ کا رویہ اتنا غلامانہ نہیں ہونا چاہیئے اور برطانیہ کی پالیسیاں امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نہیں بلکہ برطانیہ کو خود طے کرنی چاہئیں۔‘‘
لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس میں بنیادی فرق صرف الفاظ کا ہوگا پالیسی کا نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں برطانیہ کی پالیسیوں میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے ۔ لندن میں قائم ریسرچ گروپ کیتھم ہاؤس کے کیری براؤن کہتے ہیں کہ برطانیہ کی خارجہ پالیسی میں بڑا فرق اس بات سے پڑے گا کہ اب مخلوط حکومت بر سرِ اقتدار ہے ۔’’اب یہ نہیں ہوگا کہ کوئی اچانک کوئی یک طرفہ کارروائی شروع کردے۔ اب ہر اقدام پر اتفاقِ رائے ضروری ہوگا ۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ اب بڑے بڑے فیصلے زیادہ سوچ سمجھ کر کیے جائیں گے اور اس عمل میں زیادہ وقت لگے گا۔ خارجہ پالیسی کے لیے یہ ایک مثبت بات ہو سکتی ہے ۔ براؤن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس نئی مخلوط حکومت کو بیشتر توجہ معیشت کو دینی ہوگی اور مستقبل قریب میں خارجہ پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہے ۔
نئی حکومت جس نے منگل کی شب عنان اقتدار سنبھالی، تقریباً 70 برس کے عرصے میں، برطانیہ کی پہلی مخلوط حکومت ہے ۔