گذشتہ جمعے کو ڈالر کے مقابلے میں یِن کی قیمت بڑھنا شروع ہوئی اور گذشتہ 15 سال میں سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئی۔ جاپان کے وزیراعظم ناؤتوکان نے کہا کہ زرِ مبادلہ کی شرح میں بہت زیادہ کمی بیشی پر نظر رکھی جائے گی اور اگر ضروری ہوا تو حالات کو درست کرنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
یِن کی قیمت کم رکھنے کے لیے حال ہی میں جاپان کے سینٹرل بینک نے مارکیٹ میں کچھ اقدامات کیے ہیں۔ یِن مضبوط ہو تو اس سے برآمدات پر برا اثر پڑ سکتا ہے جب کہ ملک کی اقتصادی بحالی کے لیے برآمدات ضروری ہیں۔ لیکن بین الاقوامی مالیاتی لیڈروں کو اندیشہ ہے کہ مارکیٹ میں اصلاحی اقدامات کے نتیجے میں دوسرے سینٹرل بنک بھی اسی قسم کے اقدامات کر سکتےہیں اور یوں دنیا میں کرنسی کی جنگ شروع ہو سکتی ہے ۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مینیجنگ ایڈیٹرDominique Strauss Kahn نے گذشتہ جمعرات کو انتباہ کیا کہ تجارت میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے کرنسیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیئے ۔
ماضی میں ایشیائی ملکوں کے سینٹرل بنکوں نے بڑے جارحانہ انداز سے اپنی کرنسیوں کی قیمت کو ایک خاص سطح پر قائم رکھا ہے ۔ گذشتہ عشرے میں انھوں نے کرنسی کی قیمت میں بہت کم مداخلت کی لیکن حالیہ ہفتوں کے دوران کرنسی کے تاجروں کو ایسی علامتیں نظر آئی ہیں کہ حکومتیں کرنسی کے معاملات میں پھر سرگرم ہو گئی ہیں۔
سنگا پور میں بنک CIMB کے چیف اکانومسٹ سانگ سِنگ کہتے ہیں کہ ایشیائی سینٹرل بینک یہ کوشش نہیں کر رہے ہیں کہ ان کی کرنسیوں کی شرح اوپر نہ جانے پائے۔ اس کے بجائے ان کی کوشش یہ ہے کہ کرنسی کی قدرمیں اضافے کو اس طرح کنٹرول کریں کہ ان کی معیشتوںمیں بہت زیادہ خلل واقع نہ ہو۔
سانگ نے کہا’’وہ اعتدال لانے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ کاروبار میں زیادہ ہلچل پیدا نہ ہو اور پہلے سے اندازہ لگایا جا سکے کہ کیا ہونے والا ہے ۔ اگر آپ اس میں بہت تیزی سے اونچ نیچ کی اجازت دیتے ہیں، تو پھر منصوبہ بندی نا ممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہو جاتی ہے ۔‘‘
تا ہم، چین جس کی معیشت علاقے میں سب سے بڑی ہے ، اپنی کرنسی یوان کو پوری طرح کنٹرول کرتا ہے ۔تجارت میں چین کے شراکت دار چاہتے ہیں کہ اس کی کرنسی کی قدر میں30 فیصد یا اس سے زیادہ کا اضافہ ہو کیوں کہ آج کل اس کی قدر بہت کم ہے ۔ چین کی دلیل یہ ہے کہ ایسا کرنے سے، بہت سی چینی فیکٹریاں بند ہو جائیں گی۔بعض اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ ایشیا کے سینٹرل بینکرز کی اصل پریشانی یہ نہیں ہے کہ انہیں اپنی اشیاء بر آمد کرنے میں دشواری ہو رہی ہے، بلکہ وہ اپنے ملکوں میں بہت زیادہ سرمایہ آنے کے امکان سے زیادہ پریشان ہیں۔
سانگ کہتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کی معیشتیں آج کل کمزور ہیں اور سرمایہ دار اپنا پیسہ ایشیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں کی زیادہ منافع بخش منڈیوں میں لے جا رہے ہیں۔ اس سے ایشیا کی کرنسیوں سمیت دوسری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔ حاٖلیہ دنوں میں تھائی لینڈ، ملائیشیا، کوریا اور انڈونیشیا کی کرنسیوں کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ بحران کی صورت میں غیر ملکی سرمایہ بڑی تیزی سے ملک سے باہر جا سکتا ہے ۔ 1990 کی دہائی کے وسط میں، ایشیا میں بہت بڑ ی مقدار میں سرمایہ آیا لیکن 1997 میں جب اقتصادی حالت خراب ہوئی، تو یہ سرمایہ تیزی سے نکال لیا گیا۔ اس کے نتیجےمیں ، سینٹرل بینکوں کے اقدامات کے باوجود، کرنسی کی قیمتیں تیزی سے گرنی شروع ہو گئیں۔ پھر جو اقتصادی بحران آیا اس نے شدید کساد بازاری کو جنم دیا اور علاقے میں ہزاروں کاروباری ادارے فیل ہو گئے ۔
سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر شِن جنگ سُپ کہتے ہیں کہ ایشیا کے ملکوں کے سینٹرل بینکرز کو آج کل جو مسائل درپیش ہیں، وہ 1997 کے مقابلے میں زیادہ سنگین ہیں۔’’ان ملکوں میں سود کی شرحیں اتنی کم ہیں کہ تاریخ میں پہلے کبھی اتنی کم نہیں ہوئی تھیں۔ اگر وہ شرح سود اور کم کرتے ہیں تو اس سے افراط زر کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ یہ بڑا مشکل مسئلہ ہے ۔ اس کے علاوہ، ایشیا میں مالیاتی بحران کے بعد، انھوں نے مارکیٹ میں کچھ اصلاحات کی تھیں تا کہ بین الاقوامی سرمایہ آنے میں آسانی ہو۔ اب یہ بڑا مشکل کام ہے کہ سرمایے کی آمد پر پھر کچھ کنٹرول عائد کیے جائیں۔ پھر یہ مسئلہ بھی ہے کہ پہلے کے مقابلے میں اب جو پیسہ آیا ہے وہ بہت زیادہ ہے ۔‘‘
گذشتہ جمعرات کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کےStrauss-Kahn نے کہا کہ اگرچہ عالمی اقتصادی ترقی کے لیے سرمایے کا بہاؤ بہت اہم ہے، لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایشیا کے ملکوں کو کیا مسئلہ درپیش ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بیس ملکوں کے گروپ کے درمیان آپس میں تعاون ہو۔ 1985 میں جاپان، امریکہ ، جرمنی اور برطانیہ نے پلازہ اکارڈ کے نام سے ایک سمجھوتے پر دستخط کیئے تھے جس کے تحت واشنگٹن کو اپنا تجارتی خسارہ کم کرنے اور شدید کساد بازاری سے نکلنے میں مدد کے لیے ڈالر کی قدر کم کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ کیا اس قسم کا کوئی بین الاقوامی سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے ؟ توقع ہے کہ اگلے مہینےسیول میں G-20 کے ملکوں کی میٹنگ میں سرکاری عہدے دار اس سوال پر غور کریں گے۔