افغانستان کے صدر اشرف غنی نے عید الاضحی کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ اُن کا ملک پاکستان سے جامع سیاسی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح افغانستان میں بھی جمعے کو عید منائی جا رہی ہے اور اس موقع پر صدر اشرف غنی نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ امن ’’ہمارا قومی ایجنڈا ہے۔‘‘
صدر اشرف غنی نے اس موقع پر افغانستان میں سرگرم مسلح گروہوں سے بھی کہا ہے اگر وہ افغان ہیں اور کسی دوسرے کے آلۂ کار نہیں ہیں تو پھر وہ امن کے راستے کا انتخاب کریں۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ ایک مرتبہ پھر تمام مسلح گروہوں کی جانب امن کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔
افغان صدر کی طرف سے پاکستان سے مذاکرات کی پیش کش ایک پیش رفت ہے کیوں کہ حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات تناؤ کا شکار رہے ہیں۔
دونوں ہی پڑوسی ملک ایک دوسرے پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔
دفاعی اُمور کے تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن بہت اہم ہے۔
’’میرے خیال میں یہ بہت اہم ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کو اب یہ محسوس ہوا ہے کہ یہ بڑا ضروری ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا جائے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا فائدہ دہشت گردوں کو ہی ہو گا۔
’’میرے خیال میں اب اُن کو بھی علم ہے، پاکستان کو علم ہے کہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے کہ بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کیا جائے اور ایسی پالیسیاں اختیار کی جائیں جو ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچائیں۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغان صدر کے اس بیان کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطوں کی راہ ہموار ہو گی۔
’’افغان صدر کا بیان میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے۔۔۔۔ اگر اشرف غنی نے پاکستان کی جانب ایک قدم بڑھایا ہے تو ہمیں دو یا تین قدم بڑھانے چاہئیں۔‘‘
گزشتہ ماہ ہی پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے افغانستان کے نائب وزیرِ خارجہ حکمت کرزئی کی دعوت پر کابل کا ایک روزہ دورہ کیا تھا۔
اس موقع پر دونوں ممالک کے عہدیداروں کے درمیان بات چیت میں دونوں جانب سے اعتماد کی بحالی پر زور دیتے ہوئے اس مقصد کے لیے مختلف سطحوں پر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
جب کہ گزشتہ اتوار کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں انسدادِ دہشت گردی سے متعلق پاکستان، افغانستان، چین اور تاجکستان کے مابین ہونے والی چار ملکی کانفرنس کے موقع پر پاکستانی اور افغان فوج کے سربراہان کے درمیان ایک الگ ملاقات ہوئی تھی جس میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے دونوں پڑوسی ممالک کی افواج کے درمیان ورکنگ گروپ تشکیل دینے کی تجویز دی تھی۔