پاکستانی فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ف نے دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے سے متعلق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کے بیان پر کہا ہے کہ یہ فوج کا نہیں بلکہ حکومت کا کام ہے۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ان کی جماعت فوجی عدالتوں میں توسیع پر اپنا موقف نہیں بدلے گی۔ انہوں نے الزام عائد کہا کہ وزیراعظم عمران خان، فوج کے ترجمان سے بیانات دلوا کر اداروں کو متنازع بنا رہے ہیں۔
پاکستانی فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی میڈیا سے گفتگو کی اور کسی کو مخاطب کیے بغیر کہا کہ’ آپ نے جو کرنا ہے کریں، چاہے پوری پارٹی اور پورے خاندان کو جیل بھیج دو۔ ہم پریشر میں آنے والے اور نیب گردی سے ڈرنے والے نہیں ہیں. ہم دھمکیوں اور گرفتاری سے بھی ڈرنے والے نہیں۔ ہم فوجی عدالتوں کی توسیع، صدارتی نظام اور اٹھارویں آئینی ترمیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے بعد دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لیے سیاسی قیادت کی متفقہ منظوری سے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد ان عدالتوں میں توسیع کا بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا، جس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کا متفق نہ ہونا بتایا جاتا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے وزیراعظم عمران خان پر اداروں کو متنازع بنانے کا الزام بھی عائد کیا۔
مدرسوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے سے متعلق فوج کے ترجمان کے بیان پر اپنے رد عمل میں چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ وزیراعظم کو تعلیم، داخلہ اور خارجہ سے متعلق سیاسی بیانیے پر فوج کے ترجمان کی طرف سے بیان نہیں دلوانا چاہیے تھا۔ اس طرح ادارے متنازع بنتے ہیں۔ تعلیمی پالیسی وزیر تعلیم، داخلہ اور خارجہ امور سے متعلق بات متعلقہ وزیروں کو کرنی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ رول آف لاء کو فالو کرنا بہت ضروری ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ادارے متنازع ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ادارے اپنا اپنا کام کریں۔ آپ نے جتنا بھی دباؤ ڈالنا ہے ڈال لیں۔ ہمارے خاندان اور پارٹی کے تمام افراد کو بھی گرفتار کر لیں، ہم اپنے اصولوں سے نہیں ہٹیں گے۔ میرا پیغام صرف وزیراعظم کے لیے ہے کیونکہ وہی حکومت چلا رہے ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ سے متعلق سوال پر پیپلز پارٹی کے رہنما نے قبائلی اضلاع کے جوانوں سے بات چیت کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہمیں نوجوانوں اور دہشت گردی سے متاثر ہونے والوں کی مدد کرنے چاہیے۔ ہمیں قبائلی اضلاع کے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ فوجی آپریشن کے بعد وہاں کے نوجوان انتہا پسندی کی جانب جا سکتے تھے، مگر وہ انسانی حقوق اور جمہوریت کی راہ پر چلے ہیں۔ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان سے بات چیت کریں اور اس سلسلے میں ان کی جماعت حکومت کی معاونت کرنے کے لیے تیار ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا دوران پریس کانفرنس لہجہ تلخ رہا اور انہوں نے سابق صدر محمد خان جونیجو کی بات کو دہرایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مارشل لاء اور حکومت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ انہوں نے جج، جرنیل اور سیاست دان، سب کے لیے ایک ہی قانون کا مطالبہ کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے نیب کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے دوست کے دوست کے دوست کو بھی گھیسٹیں گے؟ اس طرح سے دباؤ ڈالیں گے تو ہم پھر بھی نہیں گھبرائیں گے۔ اپنے والد اور سابق صدر آصف علی زرداری کے گرفتار دوست ڈاکٹر ڈنشا کا کیا قصور تھا، پیپلز پارٹی سندھ کے رہنما شرجیل میمن کو صرف سیاسی انتقام کے لیے جیل میں ڈالا گیا۔ ناانصافی اور دوغلا نظام نہیں چل سکتا۔
مولانا فضل الرحمن کا رد عمل
جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آئی ایس پی آر کے ترجمان کے مدراس سے متعلق بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ فوج کا یہ کام نہیں کہ وہ مدارس کے معاملات کو دیکھے بلکہ یہ حکومت کا کام ہے۔
انہوں نے واضح کہا کہ مدارس کے نصاب کو طے کرنے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ ملک میں مدارس سے پہلے تعلیمی اداروں میں بہتری لائی جائے۔ 30 ہزار سے زائد دینی مدارس میں 20 لاکھ سے زیادہ غریب اور بے سہارا بچے پڑھتے ہیں۔ بیرونی قوتوں کے ایجنڈے کے تحت مدارس کا نصاب تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
پی ٹی ایم کے محسن داوڑ کا رد عمل
پشتون تحفظ موومنٹ کے محسن داوڑ نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے خلاف پریس کانفرنس کی گئی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ہم پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم لاپتا افراد اور قتل و غارت کا حساب مانگ رہے ہیں۔ اگر ہمارا احتساب کرنا ہے تو یہ پارلیمان احتساب کرے۔ لیکن اس وقت جمہوری نظام مفلوج ہو گیا ہے اور ایک فوجی ترجمان پالیسیاں دے رہا ہے۔
محسن داوڑ نے کہا کہ وزیراعظم نے بھی الزام لگایا کہ ان کو فارن فنڈنگ دی جاتی ہے، لیکن اس کا ثبوت کوئی نہیں دیتا۔ ہمیں کہا گیا کہ پی ٹی ایم کہاں تھی جب گلے کاٹے جا تے تھے۔ ہم اس وقت بھی وہاں موجود تھے، جب ہمارے مشران کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نقیب محسود قتل کا ملزم راؤ انوار دندناتا پھرتا رہا اور اس کے مجرموں کی گرفتاری کے لیے مظاہرہ کرنے پر ہم پر الزام لگا کہ دھرنے کے لیے را نے فنڈنگ کی۔