پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین کا کہنا ہے کہ اُن کی تحریک کو روکنا دہشت گردی بڑھانے کے مترادف ہے کیوں کہ ان کے بقول وہ جنگ نہیں، امن چاہتے ہیں اور پختون عوام کے مسائل کے حل کے لیے ہر سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں منظور پشتین کا کہنا تھا کہ پختون عوام کے مسائل دہشت گردی کے خلاف جنگ سے منسلک ہیں۔ ان کے بقول "کچھ طاقت ور حلقوں اور ممالک" کا روزگار جنگ سے وابستہ ہے اور اسی لیے وہ پی ٹی ایم کو متنازع بنا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پختون قوم کے مسائل کی وجہ بدامنی ہے اور اگر امن کے نام پر مزید ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے بد امنی ہو تو وہ اس پر آواز اٹھائیں گے۔
منظور پشتین کا کہنا تھا کہ پشتون تحفظ تحریک پختون علاقوں کے مسائل کے حل کے لیے ایک 'پریشر گروپ' ہے جو ہر اُس اقدام کی مزاحمت کرے گی جو امن کے راہ میں رکاوٹ ہے۔
ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کا الزام
ریاست کی عمل داری کو چیلنج کرنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں منظور پشتین کا کہنا تھا کہ ریاست کی رٹ ریاست کا آئین ہوتا ہے اور اگر آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ریاست کی رٹ چیلنج ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی فوج پشتون تحفظ تحریک کے بارے میں سخت تحفظات رکھتی ہے اور فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی ایم ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہی ہے اور اگر اس نے ریڈ لائن کراس کی تو اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
وی او اے کے ساتھ گفتگو میں منظور پشتین کا کہنا تھا کہ فوج کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ سات ہزار پختون لاپتا ہیں۔ "کیا سات ہزار افراد کو مسنگ پرسن بنانا، ماورائے عدالت قتل کرنا غیر قانونی نہیں ہے؟ بارودی سرنگیں لگانا جنگی جرائم نہیں ہے؟ ریڈ لائن تو فوج نے کراس کی ہے۔"
پشتین کہتے ہیں کہ اگر آئین کو چیلنج کرنا ریڈ لائن ہے تو انھوں (فوج) نے عبور کر لی ہے۔
"لیکن یہاں ریڈ لائن آئین نہیں فوج ہے۔ اگر اُن کی غلطیوں کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ریڈ لائن عبور کی ہے۔ ہمارے مسئلے اُن کی غلطیوں کی وجہ سے ہیں۔ اگر وہ اسے ریڈ لائن یا گرین لائن عبور کرنا کہتے ہیں تو ہم یہ کرتے رہیں گے۔"
'مذاکرات کے لیے تیار ہیں'
گزشتہ ہفتے سینیٹ کی ایک خصوصی کمیٹی نے پشتون تحفظ تحریک کے رہنماؤں سے ملاقات کر کے اُن کے مطالبات جاننے کی کوشش کی تھی۔ پارلیمانی رہنماؤں سے پی ٹی ایم کی قیادت کی یہ پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی چند روز قبل پی ٹی ایم کے مطالبات کو جائز قرار دیا تھا لیکن کہا تھا کہ اُن کا لہجہ اور انداز غلط ہے۔
عمران خان نے پی ٹی ایم کی فوج پر تنقید کے بارے میں کہا تھا کہ ان کا لہجہ درست نہیں۔ تاہم منظور پشتین کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم کا لہجہ درست ہے لیکن "سچ کڑوا ہوتا ہے۔"
مسائل کے حل کے لیے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں پی ٹی ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ ماضی میں اُنھوں نے فوج کے ساتھ رابطے پر اپنے مسائل پر تفصیلی بات کی ہے لیکن اُن کے خیال میں فوج سے بات کرنا "غیر جمہوری طریقہ" ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ وفاق کی سطح پر تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جس میں اتفاقِ رائے سے معاہدہ ہو اور اُس معاہدے کی پاسداری کی جائے۔
انھوں نے واضح کیا کہ وہ ہر پلیٹ فارم پر اپنے مطالبات سے آگاہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پی ٹی ایم تحریک سے تبدیلی
منظور پشتین کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم کی تحریک سے عوام میں خوف کم ہوا ہے اور اُن کے بقول عوام کو ڈرانا دھمکانا اور خوف میں مبتلا رکھنا دہشت گردی ہے۔
اُن کے خیال میں اُن کی تحریک سے یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ "لوگ پہلے فوج کے اداروں کا براہِ راست نام نہیں لیتے تھے، ڈرتے تھے لیکن اب فوج کی غلطیوں کو آشکار کرتے ہیں اور اداروں کی مداخلت پر کھل کر بات کرتے ہیں۔"
انھوں نے کہا کہ پی ٹی ایم سے پہلے کوئی پشتونوں کے مسائل پر بات نہیں کرتا تھا۔ لیکن اُن کے احتجاج اور ریلیوں نے لوگوں کو پشتون علاقے اور عوام کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پی ٹی ایم خفیہ یا اعلانیہ ہر طرح کی دہشت گردی کو سامنے لاتی رہے گی اور اس لیے پی ٹی ایم کا راستہ روکنا دہشت گردی کو ہوا دینا ہے۔
فوج کے خلاف نعرے بازی
پی ٹی ایم کے جلسوں میں فوج کے خلاف نعرے بازی سے متعلق سوال پر منظور پشتین کا کہنا تھا کہ "اگر غلطی فوج کرے گی تو اس پر نعرے بازی ہو گی۔ فوج کیوں نازک مزاج بنی ہوئی ہے؟ اگر دخل اندازی ہو رہی ہے تو بات ہو گی۔"
کراچی میں ایک جعلی پولیس مقابلے میں ایک پشتون نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل سے شروع ہونے والی پشتون تحفظ موومنٹ، پشتون علاقوں میں ایک مقبول تحریک بن کر ابھری ہے اور گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران سابق قبائلی علاقوں سمیت ملک کے مختلف حصوں میں پی ٹی ایم نے کئی بڑے جلسے کیے ہیں۔
نوجوان قیادت پر مشتمل پی ٹی ایم پر بیرونِ ملک سے فنڈنگ لینے اور غیر ملکی طاقتوں کے ایجنڈے پر کام کرنے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں جس کی پی ٹی ایم رہنما تردید کرتے ہیں۔