میانمار میں خوراک کی قلت، عوام کی معاشی مشکلات میں اضافہ

میانمار میں پولیس اور فوج سڑکوں پر گشت کر رہی ہے۔ فائل فوٹو

میانمار میں فوجی حکومت کے اقتدار کے 65 دن گزرنے کے بعد خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت کی شکایات سامنے آرہی ہیں۔ میانمار کے شہریوں کا کہنا ہے کہ فوجی سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے سامان لانے والے ٹرکوں کو لوٹ رہے ہیں اور ان سے نقدی چوری کر رہے ہیں۔

میانمار کے شہر کیاک پیڈانگ میں ایک رہائشی نے ریڈیو فری ایشیا کو بتایا کہ فوجیوں نے ان کی کار کو روک کر گاڑی کے ڈیش بورڈ پر رکھے پرس میں سے پانچ لاکھ کی مقامی کرنسی نکال لی۔

میانمار جنوب مشرقی ایشیا کا غریب ترین ملک ہے، جس کی مجموعی قومی پیداوار 1،300 ڈالر فی کس ہے۔

عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے، گھریلو سطح پر اور کاروباروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ میانمار کا زرعی شعبہ بھی اس سے متاثر ہوا ہے جو ملک کی نصف آبادی کو ملازمت اور مجموعی پیداوار کے پانچویں حصے کا ذمہ دار ہے۔ فوجی جنتا کی بغاوت اور پھر اس کے نتیجے میں ہونے والی سول نافرمانی سے معاشی سرگرمیوں کو مزید نقصان پہنچا ہے۔

فوج کی جانب سے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے سے ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں اشیائے خوردونوش کی ترسیل بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ تاجروں نے ریڈیو فری ایشیا کو بتایا کہ مرکزی شاہراہوں پر ناکے لگائے ہوئے فوجی، اکثر ڈرائیوروں اور موٹر سائیکل سواروں سے مبینہ طور پر سامان اور رقوم چھین لیتے ہیں۔

ملک کی سب سے زیادہ آبادی والے شہر ینگون میں بھی معاشی نقصان کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ ینگون کے شہریوں کا اشیائے خورد و نوش اور دیگر اشیا کی فراہمی کا دار و مدار شہر کے باہر سے آنے والی ترسیل پر ہے۔

اشیائے خود و نوش کی فراہمی میں خلل کی وجہ سے، شہریوں کو اپنے علاقے کی مارکیٹوں میں سبزیوں اور گوشت کی کم فراہمی کا سامنا ہے۔ ینگون کی ایک شہری کا کہنا ہے کہ ان اشیا کی قیمتوں میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔

اسی خاتون نے بتایا کہ ینگون کی سپر مارکیٹیں معمول کے مطابق چل رہی ہیں، جن میں سٹی مارٹ اور میٹرو شامل ہیں، لیکن چھوٹے سٹور اور دکانیں بند پڑی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گوشت اور سبزیوں کی فراہمی معمول کی مقدار میں دستیاب نہیں ہیں اور ان کی قیمتوں میں دگنا بلکہ تگنا اور اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

ینگون میں چاول بیچنے والے ایک تاجر کا کہنا تھا کہ شہر کی ہول سیل منڈیوں میں داخل ہونے والے ٹرکوں کی تعداد میں بھی دو تہائی کمی دیکھی گئی ہے، جس کی وجہ سے رسد میں اور کمی ہوئی ہے اور قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

منگل کی دوپہر تک ملک بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران تین شہری گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے ہیں اور مظاہرین کی نامعلوم تعداد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن میں منڈالے کے چار ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔

میانمار کے شہر منڈالے اور ینگون کے نواحی علاقوں اور ملک کے دیگر شہروں اور قصبوں میں فوجی حکومت کے خلاف کسی نہ کسی شکل میں احتجاج جاری ہیں۔

ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) کے مطابق مظاہرہ کرنے والے افراد نے منگل کو اپنی ریلیوں میں رنگوں کا استعمال کرتے ہوئے تجارتی مرکز ینگون میں سڑکوں اور فرشوں پر سرخ پینٹ بکھیر دیا جو کہ ان مظاہروں پر فوجی حکومت کی خونیں کارروائیوں کی مخالفت کی جانب ایک اشارہ ہے جس میں لگ بھگ 570 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔

ایک آن لائین جریدے دی ایرا وادی کے مطابق، میانمار کے نوجوان فوجی حکومت کی مخالفت اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے احترام میں آئندہ ہفتے ایک واٹر فیسٹیول کی تعطیل کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مختلف علاقوں کے رہائشیوں کے مطابق فوجی حکام، جنہوں نے پہلے ہی معزول رہنما آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ برائے جمہوریت کے دفتر بند کردیے تھے، پارٹی عہدیداروں اور پارلیمانی ارکان کی گرفتاری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تاہم میانمار کے فوجی حکام ایسے الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔