غزہ کے لیے مصر کا منصوبہ کیا ہے: عرب رہنماؤں کا سعودی عرب میں اجلاس

ایک فلسطینی جنوبی غزہ میں تباہ شدہ عمارتوں کے درمیان۔

  • ب بھی اس بارے میں اختلافات برقرار ہیں کہ غزہ پر حکومت کس کو کرنی چاہیے اور اس کی تعمیر نو کے لیے فنڈز کیسے مہیا کیے جا سکتے ہیں۔
  • عرب ریاستیں صدر ٹرمپ کے منصوبے کی مخالفت میں متحد نظر آتی ہیں۔
  • ایک عرب سفارت کار نے کہا: "مصری منصوبے کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس کیلئے مالیات کی فراہمی کیسے ہوگی۔
  • ہم عرب اسرائیل یا اسرائیل فلسطینی تنازعے کے ایک انتہائی اہم تاریخی موڑ پر ہیں... جہاں ممکنہ طور پر ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ زمین پر ایسےنئے حقائق کو جنم دے سکتا ہے جو ناقابل واپسی ہوں۔تجزیہ کار


عرب رہنماؤں نے جمعے کے روز ریاض میں ملاقات کی تاکہ غزہ کی جنگ سے تباہ حال غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا جا سکے جس کا مقصد ہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے فلسطینی باشندوں کی علاقے سے منتقلی اور اس کا کنٹرول سنبھالنے کی امریکی تجویز کا کا کوئی متبادل پیش کرنا ہے۔

اگرچہ عرب ریاستیں صدر ٹرمپ کے منصوبے کی مخالفت میں متحد نظر آتی ہیں، لیکن ب بھی اس بارے میں اختلافات برقرار ہیں کہ غزہ پر حکومت کس کو کرنی چاہیے اور اس کی تعمیر نو کے لیے فنڈز کیسے مہیا کیے جا سکتے ہیں۔

سعودی سرکاری ٹیلی ویژن پردکھائی جانے والی ایک تصویر میں مملکت کے ڈی فیکٹورہنما ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو دیگر خلیجی عرب ریاستوں مصر اور اردن کے رہنماؤں کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔

سعودی حکومت کے قریبی ذرائع نے تصدیق کی کہ ان کی ملاقات ختم ہو گئی ہے لیکن میزبانوں نے فوری طور پر کوئی حتمی بیان جاری نہیں کیا۔

مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے دفتر نے کہا کہ وہ بحرین، اردن، کویت، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد سعودی دارالحکومت سے روانہ ہو گئے ہیں۔

ایک سعودی ذریعے نےاس سے پہلے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ مغربی کنارے میں حماس کی حریف فلسطینی اتھارٹی کے بھی مذاکرات میں شرکت کی توقع ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ؛ تفصیلات کیا ہیں؟

ٹرمپ کی اس تجویز نے عالمی غم و غصے کو جنم دیا ہےکہ امریکہ غزہ کی پٹی کو کنٹرول میں لے لے، او اور اس کے بیس لاکھ سے زیادہ باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کردیا جائے۔

'مصر کا منصوبہ'

کنگز کالج لندن کے اینڈریاس کریگ نے میٹنگ سے پہلے کہا کہ "ہم عرب اسرائیل یا اسرائیل فلسطینی تنازعے کے ایک انتہائی اہم تاریخی موڑ پر ہیں... جہاں ممکنہ طور پر ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ زمین پر ایسےنئے حقائق کو جنم دے سکتا ہے جو ناقابل واپسی ہوں"۔

ایک سعودی ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ سربراہی اجلاس کے شرکاء غزہ کے لیےصدر ٹرمپ کے منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لیے تعمیر نو کے کسی منصوبے پر تبادلہ خیال کریں گے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ سے زیادہ کی جنگ کے بعد غزہ کی پٹی بڑے پیمانے پر تباہی کا شکار ہے، اقوام متحدہ نے حال ہی میں اندازہ لگایا ہے کہ تعمیر نو پر 53 ارب ڈالر سے زیادہ لاگت آئے گی۔

SEE ALSO: غزہ کے حوالے سے عرب رہنماؤں کا متبادل منصوبہ ابھی نہیں دیکھا: صدر ٹرمپ

11 فروری کو واشنگٹن میں ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے دوران اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے کہا کہ مصراس سلسلے میں پیش رفت کے لیے ایک منصوبہ پیش کرے گا۔

سعودی ذریعہ نے کہا کہ مندوبین "مصری منصوبے کے ایک ورژن" پر تبادلہ خیال کریں گے۔

سرکاری سعودی پریس ایجنسی نے کہا کہ "غیر سرکاری برادرانہ اجلاس" میں کیے گئے فیصلے 4 مارچ کو مصر میں ہونے والے عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس کے ایجنڈے میں رکھے جائیں گے۔

منصوبے کے لیے فنڈنگ

غزہ میں خان یونس کے علاقے میں فلسطینی ماہی گیر مچھلیاں پکڑ رہے ہیں۔

قاہرہ نے ابھی تک اپنی تجویز کی تفصیلات جاری نہیں کی ہیں، لیکن مصر کے سابق سفارت کار محمد حجازی نے "تین سے پانچ سال کے عرصے میں تین تکنیکی مراحل میں" ایک منصوبے کا خاکہ پیش کیاہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلا مرحلہ، جو چھ ماہ تک جاری رہے گا، ابتدائی بحالی اور ملبے کو ہٹانے پر توجہ مرکوز کرے گا۔

دوسرے میں تعمیر نو اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیےکوئی تفصیلی منصوبہ ترتیب دینے کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس کی ضرورت ہوگی۔

آخری مرحلے میں رہائش اور خدمات کی فراہمی اور "دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیےکسی سیاسی عمل کا قیام کیا جائے گا۔

SEE ALSO:   اسرائیلی فورسز  منگل  کو انخلا کے بعد بھی جنوبی لبنان کے پانچ مقامات پر رہیں گی: فوجی ترجمان

خلیجی امور سے واقف ایک عرب سفارت کار نے کہا: "مصری منصوبے کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس کیلئے مالیات کی فراہمی کیسے ہوگی۔

"عرب رہنماؤں کے لیے ایک مشترکہ وژن تک پہنچے بغیر ملاقات کرنا ناقابل فہم ہوگا، لیکن اصل چیز اس وژن کے مواد اور اس پر عمل درآمد کی صلاحیت میں مضمر ہے۔"

کریگ نے کہا کہ "سعودیوں کے لیے یہ ایک "منفرد موقع" ہے کہ وہ ٹرمپ کی جانب سے دیے جانے والے اس بیان پرخلیج کے تعاون کی کونسل( GCC) کے دیگر تمام ممالک کے علاوہ مصر اور اردن کے ساتھ مل کر، جواب دینے کے لیے ایک مشترکہ موقف تلاش کریں۔

اس رپورٹ کا متن ا یجنسی فرانس پریس کی اطلاعات پر مبنی ہے۔