''کال ختم ہونے سے قبل وقاص بھائی کے الفاظ تھے کہ ہفتے کو تم سب پہلے جمع ہو جانا، میرے ذہن میں ان کے یہ الفاظ گونج رہے ہیں کہ آنا تو انھیں جمعے کو تھا، لیکن جو ان کے الفاظ تھے کہ پہلے تم سب جمع ہو جانا، پھر میں آؤں گا، وہ پورا ہوا۔ ہم سب پہلے آ گئے اور وہ بعد میں آئے۔ اگر ان کی زندگی ہوتی تو وہ ہم سے پہلے پہنچ جاتے۔ میں ان کے یہ الفاظ ساری عمر یاد رکھوں گی۔"
یہ احساسات مریم سمیر کے ہیں۔ جو پی کے 8303 کے حادثے میں زندگی ہارنے والے وقاص طارق کی کزن ہیں۔
گلبہار کے علاقے وحید آباد کی تنگ گلیوں کا دو منزلہ گھر تعزیت کے لیے آنے والوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر کمرے میں موجود خواتین کی بڑی تعداد نے کچھ دیر قبل ہی وقاص طارق اور ان کی اہلیہ ندا وقاص کو آخری آرام گاہ بھیجنے سے قبل خوب شکوے گلے کیے کہ ان کا لاڈلا تو ان کے چہروں پر خوشیاں سجانے آ رہا تھا، آنسو کیوں دے گیا۔
یہ کیسا سرپرائز تھا؟ یہ کیسی دعوت تھی، جس پر جانے والے نے سب کو آج ہی مدعو کر رکھا تھا۔
یہ گھر وقاص کا آبائی گھر ہے۔ یہیں وہ پیدا ہوئے، بڑے ہوئے، شادی ہوئی اور آج آخری سفر بھی یہی سے ہوا۔
پی آئی اے کی پرواز 8303 سے آنے والے وقاص اکیلے نہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ ندا، دس سالہ بیٹی آئمہ، سات سالہ بیٹا عالیان بھی شریک سفر تھے۔ لیکن جس روز انھوں نے اپنے پیاروں کو اپنے لاڈلے بچوں کی خوشی میں شریک ہونے کے لیے بلایا، اسی روز انہیں سپرد خاک کیا گیا۔ حادثے میں ہلاک ہونے والے وقاص کے دونوں بچوں کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ندا کی والدہ مسز عرفان، جو بچوں کی نانی بھی ہیں، اپنی سب سے بڑی اولاد کو کھونے کا غم تو جھیل رہی ہیں، لیکن بار بار یہ درخواست کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ ان کے نواسہ نواسی کی لاشیں ان کے حوالے کر دی جائیں جن کا ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔
مسز عرفان کے مطابق، میری بیٹی کی ایک سال قبل ہی لاہور اٹلس ہونڈا میں بطور اسسٹنٹ مینیجر پوسٹنگ ہوئی تھی۔ وہ بہت ذہین تھی۔ فلائٹ سے ایک روز قبل ہی اس نے مجھے کال کر کے بتایا کہ امی میں عید منانے آ رہی ہوں اور ہفتے کو بچوں کی روزہ کشائی بھی ہو گی۔ آپ تیاری رکھیں لیکن یہ حادثہ ہو گیا۔
ان کے بقول، "میرے نواسے عالیان کی ابھی 15 مئی کو ہی ساتویں سالگرہ ہوئی تھی۔" نواسے کی سالگرہ کی تصاویر دکھاتے ہوئے مسز عرفان کا ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔
مسز فوزیہ، وقاص کی پھوپھی ہیں جن سے کراچی آنے سے قبل رات ڈیڑھ بجے تک وقاص بات کرتے رہے۔
فوزیہ کا کہنا ہے کہ یہ کال معمول سے کہیں زیادہ طویل تھی، جس میں ہنسی مذاق بھی جاری رہا۔ وقاص نے کہا کہ میں نے یہ فلائٹ لینے سے قبل ہی سارا انتظام کروا لیا ہے۔ صرف آپ کو اور چچا کو بتا رہا ہوں، کسی سے نہ کہیے گا تاکہ سرپرائز رہے اور دیکھیں مانی چلا گیا اور ساتھ سب کو لے گیا۔
وقاص اپنے چچا چچی سے خاصے قریب تھے۔ ان کی المناک موت پر ان کی چچی بہت زیادہ غمزدہ ہیں۔ وقاص نے لینڈنگ کرتے ہی ان کے گھر قیام کرنا تھا جہاں انھوں نے بچوں کی خوشی کے لیے سب کو دعوت دے رکھی تھی۔
سعدیہ بھی وقاص کی پھوپھی ہیں۔ ان کے مطابق جہاز کو جب حادثہ پیش آیا تب سے ہی خبر سن کر سب اسپتال کے چکر کاٹتے رہے۔ پھر رات دس بجے وقاص اور ندا کو شناخت کر لیا گیا۔ وقاص کو ان کی گھڑی سے پہنچانا گیا جو انھیں شادی میں تحفتاً دی گئی تھی۔ ان کا جسم اتنا جلا ہوا تھا کہ شناخت ممکن تھی۔ یہاں تک کہ ان کے جسم پر تمام کپڑے موجود تھے اور ایک پاؤں میں جوتا اور موزا بھی تھا۔ ندا کو بھی ان کے چہرے اور گلے میں موجود سونے کی چین سے پہنچانا گیا۔
گھر میں تعزیت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے جو بتاتا ہے کہ ہر ایک کے لیے یہ خبر کتنی دل گرفتہ ہے۔
وقاص کی خاندان والوں سے محبت اور ان کی عادت و اطوار کو یاد کرنے والوں میں ان کی کزن مریم سمیر بھی ہیں۔ جو گھر میں صدمے سے نڈھال خواتین کی دلجوئی کرتی دکھائی دیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مریم نے بتایا کہ وہ اپنے زیر تعمیر گھر کے سبب بچوں کے ہمراہ ان دنوں اپنی والدہ کے گھر مقیم ہیں۔ یوں جب بھی ان کی والدہ سے وقاص رابطہ کرتے تھے، مریم سے بھی بات کرتے۔ وقاص تین بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے اور خاندان بھر میں ہردلعزیز تھے۔ اپنی آمد سے قبل انھوں نے جب پھوپھی سے بات کی تو مریم بھی اس گفتگو میں شامل تھیں۔
"جب سے وقاص بھائی لاہور سیٹل ہوئے تو خاندان سے اور بھی قریب ہو گئے، روزانہ ہی سب کو کال کرتے تھے۔ خیر خبر لیتے تھے۔ جمعرات کی رات انھوں نے امی سے کہا کہ فوزیہ پھوپھو میں چاہتا ہوں، سب کو ایک جگہ جمع کر لوں، تو امی نے کہا کیوں تمہارے پاس بہت پیسے آ گئے ہیں؟ تو بھائی نے کہا پیسے کا کیا ہے آج ہیں کل نہیں ہیں۔ بس میں سب کو کھانا کھلانا چاہتا ہوں۔ سب چچا کے گھر جمع ہو جاؤ۔ میں سب کو وہاں کھانا کھلا دوں گا۔"
مریم کے بقول، "میں نے انھیں ہمیشہ سب سے پیار محبت کرتے دیکھا، بڑوں کا احترام کرتے تھے۔ اپنی بیوی کے ساتھ ان کا رویہ قابل رشک تھا۔ وہ نوکری کرتی تھیں ہمیشہ انھیں سپورٹ کیا۔ ہماری بھابھی بھی بہت اچھی تھیں۔ ان کا رویہ بھی مثالی تھا۔ دونوں میاں بیوی میں جو محبت تھی وہ سب کو نظر آتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے زندگی کے آخری سفر میں بھی ایک دوسرے کو تنہا نہیں چھوڑا۔ بچوں کی خواہش کہنے سے پہلے پوری کرتے تھے۔ اکثر ان کو بڑے کہتے تھے کہ کچھ سیونگ کرو، تو کہا کرتے تھے کہ نہیں میرے بچے ہیں۔ انھیں کوئی کمی نہ رہے۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے پوری فیملی کو عمرہ کروایا۔ اتنی کم عمری میں ان کے بچوں کو عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ انھوں نے اپنی سب خواہشیں پوری کیں۔ شاید انھوں نے اتنی ہی عمر پائی تھی۔ تب ہی سب نعمتوں سے اللہ نے انھیں نوازا تھا۔"
تدفین مکمل ہوتے ہی جب خاندان کے مردوں کی واپسی ہونے لگی تو ایک بار پھر سے وقاص اور ندا کو یاد کرنے کی صدا گونجی۔ کوئی گلے لگ کر روتا رہا تو کوئی اس حادثے کو خدا کی جانب سے ملنے والی آزمائش کہہ کر دوسروں کو تسلی دیتا رہا۔
ہم اس سوگوار گھرانے کے دکھ کو سن کر سوچنے لگے کہ جہاز کے حادثے میں جانیں کھونے والے 97 افراد کے خاندانوں کا دکھ عمر بھر کا ہے۔ کس نے کیا وعدہ کیا ہو گا؟ کیسا سرپرائز دینا تھا؟ اپنے پیاروں سے عید پر کیا فرمائش کرنا تھی۔ ایسی کئی داستانیں ہماری منتظر ہوں گی۔
لیکن ابھی اگلی منزل ایدھی کا وہ سرد خانہ تھا، جہاں جھلسی ہوئی میتیں اپنے پیاروں کی منتظر تھیں کہ کوئی آئے اور انھیں پہچان کر گھر واپس لے جائے کہ سفر اب طویل ہو چلا، انتظار اب صبر آزما ہو چکا۔