رسائی کے لنکس

کراچی طیارہ حادثے کا آنکھوں دیکھا حال


جمعے کی دوپہر کراچی کے علاقے ماڈل کالونی کے جناح گارڈن میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا؛ بلکہ، آج کئی ہفتوں کے بعد جمعتہ الودع کے موقع پر علاقے کی مسجد بلال میں معمول کے مطابق نماز جمعہ بھی ادا کی گئی، اور بہت سی دعائیں بھی کی گئیں۔

کراچی ائیرپورٹ کے قریب ہونے کے باعث یہاں کے لوگوں کے لئے طیاروں کی نچلی پروازیں اور جہازوں کا شور بھی معمول کا حصہ ہیں۔ جہاز نیچے ہونے کے باعث یہاں کے رہائشی تو ان کے نچلے حصے پر درج رجسٹریشن نمبر تک پڑھ لیتے ہیں۔

یہاں کے رہائشی اور سابق ریٹائرڈ انجیئنر پی آئی اے، نجیب الرحمان کے مطابق، انہیں ڈھائی بجے کے قریب گزرنے والے طیارے کی آواز معمول سے کچھ ہٹ کر لگی۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر انہوں نے اپنے گھر کے کمرے ہی میں بیٹھے یہ اندازہ لگالیا تھا کہ جہاز کی لینڈنگ کی آواز غیر معمولی ہے اور اس میں کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے اور ان کا گھر ایسے ہلا جیسے 9 یا 10 شدت کا زلزلہ آگیا ہو۔ انہوں نے فوراً اپنے گھر والوں کو کہا کہ وہ گھر سے باہر نکلیں اور خود بھی گھر سے باہر نکل گئے۔

نجیب الرحمان کے بقول، گلی میں ایک طیارے کا بہت بڑا ملبہ پڑا ہوا تھا۔ جہاز کے پر کا ایک حصہ ان کے پڑوسی کی چھت پر پڑا تھا۔ دھوئیں کے بادل تھے۔ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ قیامت صغریٰ کا منظر کا عالم تھا۔ بجلی کی تاریں گری ہوئی تھیں۔ گلی میں کھڑی گاڑیوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ ہر کوئی چیخ و پکار میں مصروف تھا۔ اور اس کے بعد پہلے تو محلے کے لوگوں نے اپنی جانیں بچائیں اور کوشش کی کہ ریسکیو کا عملہ پہنچنے تک جس قدر ممکن کو آگ کو پھیلنے سے بچایا جائے۔

جناح گارڈن میں اس حادثے کے بعد پولیس موقع پر پہنچی جس کے بعد فائر بریگیڈ کا عملہ پہنچا تو انہیں چھوٹی گلیوں میں جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے آگ پر فوری قابو پانے میں دقت کا سامنا کرنا پڑا اور زیادہ وقت لگا۔

کراچی میں متعدد حادثوں کی طرح اس حادثے نے ایک بار پھر واضح کیا کہ کراچی کی بلدیہ عظمیٰ کے پاس ایسے حادثات سے نمٹنے کے لئے آلات، مشینیری اور تربیت یافتہ عملے کی بہرحال شدید کمی ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کے اربن سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم کے پاس بھی آلات اور تربیت کا فقدان واضح طور پر نظر آٰیا۔

واقعے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ہی دیر بعد سڑک کے اس پار موجود ملیر کینٹ سے فوج کے تازہ دم دستے، ہیوی مشینری اور دیگر آلات کے ساتھ پہنچے تو پولیس کی مدد سب سے پہلے علاقے کو مکمل طور پر سیل کیا گیا، عوام کے جم غفیر کو اس جگہ سے دور کیا گیا جن میں سے کئی اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس کو مرچ مصالحہ فراہم کرنے کےلئے وہاں ہونے والی ہر سرگرمی کو ریکارڈ کر رہے تھے یا پھر وہیں سے لائیو اسٹریمنگ کرتے نظر آئے، جس کے بعد بامعنی انداز میں ریسکیو آپریشن شروع کیا جاسکا۔

میڈیا کے نمائندوں کو بھی کہا گیا کہ وہ جائے وقوعہ سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوں۔ لیکن، کیا کریں ہماری تربیت ہی ایسی ہی ہے کہ جب تک جائے حادثہ پر کھڑے نہ ہوجائیں اس وقت تک چین ہی نہیں آتا۔ ہم بھی کیمرے کے ساتھ کبھی اس گلی اور اس گلی سے جائے وقوعہ کے قریب سے قریب تر ہونے کی تلاش میں ڈٹے رہے جب تک کہ وہاں موجود کپتان نے ہمیں ہاتھ جوڑ کر آگے جانے سے معذرت کی اور ہمیں پیچھے رہنے کو کہا۔

بہرحال، ایک بات تو عیاں ہے کہ کوئی حادثہ ہو یا کوئی تقریب، خوشی ہو یا غمی، نظم و ضبط کا فقدان ہماری قومی روایات کا حصہ بن چکا ہے جس سے جان چھڑانا ماضی قریب میں تو فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔

کوریج کے دوران کرونا وائرس سے بچاو کے لئے سماجی دوری اور دیگر ایس او پیز کی پابندی تو کہیں یاد رہی اور کہیں صرف نظر ہی کرنا پڑی، اور پھر بلا کی گرمی نے سبھی کچھ بھلا کررکھا ہوا تھا۔

لیکن، کچھ لوگ ایسے بھی نظر آئے جو روتے ہوئے اپنے پیاروں کو تلاش کررہے تھے، ان کے جذبات، اپنے پیاروں کو ڈھوندتی متجسس نگاہیں اور سوالیہ چہرے بہت کچھ کہہ رہے تھے، لیکن حقیقت میں ابھی انہیں کوئی ڈھارس دے بھی تو کیا دیتا؟

حادثے کے مقام پر کوریج مکمل کرنے کے بعد ہم پی آئی اے کے حاضر فوجی افسر سی ای او ارشد ملک کی پریس کانفرنس میں پہنچے جو حادثے کے بعد اسلام آباد سے کراچی پہنچے تھے اور جائے وقوعہ کا دورے اور پھر اپنی ٹیم کے ساتھ انٹرنل میٹنگ کرنے کے بعد صحافیوں کے تند و تیز سوالات کا جواب دیتے نظر آئے۔

ظاہر ہے کہ وہ فوری طور پر طیارے کے حادثے کا شکار ہونے کی وجوہات بتانے سے تو قاصر تھے اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک صاف اور شفاف تحقیقات کے بعد ہی معلوم ہو پائے گا کہ آخر اس حادثے کی اصل وجوہات کیا ہیں۔ لیکن، ایک دوست صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے اس بات سے بالکل انکار نہیں کیا کہ 7 دسمبر 2016 کو حویلیاں کے قریب چترال سے اسلام آباد آنے والی پی آئی اے کی پرواز 661 کے تباہ ہوجانے کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں لائی گئی جس میں ممتاز نعت خوان جنید جمشید سمیت آن بورڈ تمام 47 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑایا کہ اس تحقیقات کو پبلک کرنا ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اور نہ ہی یہ رپورٹ ان کے پاس موجود ہے۔

تو پھر آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ جمعے کو ہونے والے طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ کب تک تیار ہو کر میڈیا کو جاری کردی جائے گی، تاکہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے بارے میں سچ سامنے آئے اور ذمہ داروں کا تعین کیا جاسکے؛ اگرچہ اس مقصد کے لئے وفاقی حکومت نے ائیرکرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹی گیشن بورڈ کے قیام کا نوٹی فیکیشن حادثے کے چند گھنٹوں بعد ہی جاری کر دیا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG