امریکہ اور طالبان کے درمیان ہفتے کے روز امن معاہدے پر دستخط کے بعد کیا افغاتستان میں امن بحال ہو جائے گا، اس بارے میں متعدد افغان شہری ملے جلے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔
انھوں نے سالہاسال سے افغانستان میں لڑائی کی صورت حال دیکھی ہے اور ان کے لئے یہ تصور کرنا آسان نہیں کہ پر امن افغانستان دیکھنے میں کیسا لگے گا۔
عرش کابل میں رہتے ہیں ، افغان پولیس میں کام کرتے ہیں، اور اپنا پورا نام نہیں بتانا چاہتے۔ سال 2001ء میں وہ سات برس کے تھے، جب امریکی قیادت والے فوجی اتحاد نے طالبان حکومت کو رخصت کیا۔
عرش کہتے ہیں کہ ’’ہمارے پاس لڑائی سے بچنے کی کوئی راہ نہیں تھی‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی امن چاہتے ہیں، لیکن سیاسی رہنما ’’اختیارات کے بھوکے ہیں، انھیں امن سے کچھ لینا دینا نہیں ہے‘‘۔
بقول ان کے، طالبان بھی افغان ساتھی ہی ہیں، اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کے ساتھ مل کر امن قائم کریں۔
اٹھارہ برس کی لڑائی کے نتیجے میں افغانستان کی معیشت بدتر ہو چکی ہے، حالانکہ افغانستان کی تعمیر نو پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔ افغان آبادی کا 55 فی صد غربت کا شکار ہے، یعنی یومیہ ایک ڈالر سے بھی کم معاوضہ کما پاتا ہے، جب کہ 2012ء کے مقابلے میں، اس میں 34 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔
کام کی تلاش میں کابل کی یخ بستہ صبح درجنوں مزدور دھاڑی کی تلاش میں سڑکوں کے کنارے بیٹھے رہتے ہیں۔جہاں نئی بلند عمارات کے سائے میں چھوٹی تنگ دکانیں ہیں۔
بعض کے کپڑے خستہ حال اور پھٹے ہوئے ہوتے ہیں، بعض نے پینٹ اور برش اٹھایا ہوتا ہے۔
قدرت اللہ نے بتایا کہ ’’سارے لوگ دہاڑی کی تلاش میں ہیں۔ ہماری طرح کے ہزاروں لوگ شہر میں پھر رہے ہیں‘‘۔
انھوں نے بتایا کہ وہ امن سمجھوتے کے حق میں ہیں اور انھیں توقع ہے کہ اس سے روزگار میسر آئے گا۔ لیکن، سرکاری بدعنوانی نے جڑیں پکڑ لی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کو فراہم کی گئی بڑی بڑی رقوم ’’ہمارے رہنماؤں کی جیبوں میں چلی گئی ہیں‘‘۔
گزشتہ سال ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے 180 ملکوں میں سے افغانستان کو 173 واں درجہ دیا، یعنی افغانستان 100 میں سے 11ویں نمبر پر ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی جانب سے افغانستان پر کیے جانے والے اخراجات کے سخت مخالف ہیں۔
ماہرین کو توقع ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں سمجھوتے پر دستخط ہونے کے بعد امریکی فوج کے انخلا کی راہ ہموار ہو جائے گی جب کہ ملک کے مستقبل کے بارے میں تنازع میں شامل دونوں طرف کے افغانوں کے مابین مذاکرات ہوں گے۔
افغانستان میں سیاسی قائدین کے مابین ہمیشہ تلخ چپقلش جاری رہی ہے۔ عارضی معاہدے پر تشویش کے عنصر کے علاوہ دھڑے بندی میں تقسیم ملک کو متحد رکھنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان، صدیق صدیقی نے کہا ہے کہ ہفتے کے روز افغان دارالحکومت سے باہر امریکی وزیر دفاع اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژاں اسٹولٹنبرگ ایک اعلامیے پر دستخط کریں گے، جس سے افغانستان کے لیے بین الاقوامی برادری کے عزم کا اعادہ ہو گا۔
اس ہفتے کے اوائل میں دورہ بھارت کے دوران، صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’’ہم فوجی فورس کے طور پر نہیں بلکہ پولیس فورس کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ اپنے ملک کے لیے وہ اپنی پولیس خود تعینات کریں‘‘۔
صدر ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے ہیں، کہ امن معاہدے کے تحت 13000 امریکی فوجوں میں سے ابتدائی انخلا کے بعد فوج کی تعداد کم ہو کر 8600 رہ جائے گی۔