افغانستان میں انسانی حقوق کے آزاد کمیشن نے کہا ہے کہ رواں سال کےابتدائی چھ ماہ کے دوران ملک میں تشدد کے واقعات میں تقریباً تین ہزار عام شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
انسانی حقوق کے آزاد کمیشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری سے جون میں افغانستان میں تشدد کے 880 واقعات میں 1200 شہری ہلاک جب کہ 1700سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران تشدد کے واقعات میں ہر روز اوسطاََ 16 عام افغان شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔
کمیشن کی طرف سے منگل کو جاری ہونے والے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں 2019 کےابتدائی چھ ماہ کے مقابلے میں 11 فی صد کمی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال جنوری سے جولائی کے مقابلے میں رواں سال اسی عرصے میں زخمی اور ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد میں 33 فی صد کمی ہوئی ہے۔ رواں سال 630 بچے زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں جب کہ گزشتہ سالاسی عرصے میں یہ تعداد 951 تھی۔
کمیشن کے مطابق عام شہریوں کے ہلاک و زخمی ہونے والے میں لگ بھگ نصف کے ذمہ داری طالبان پر عائد ہوتی ہے جب کہ 15.5 فی صد کی ذمہ دار افغان سیکیورٹی فورسز ہیں جب کہ 2.3 فی صد ہلاکتوں اور شہریوں کے زخمی ہونے کی ذمہ داری غیر ملکی افواج پر عائد ہوتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ 2019کے مقابلے میں رواں سال طالبان کے حملوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والے تعداد میں 24 فی صد کمی ریکارڈ کی گئی ہے البتہ اس کے باوجود کہ رواں سال شہریوں کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے والوں میں سے تقریباََ نصف کی ذمہ داری طالبان پر عائد کی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رواں سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد طالبان کے حملوں میں کمی دیکھی گئی ہے۔
طالبان کا دعوی ٰہے کہ وہ حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے۔
طالبان کی افغان فورسز کے خلاف حالیہ دنوں میں کارروائیوں میں مبینہ طور پر اضافہ ہوا ہے۔ افغان حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ ان حملوں میں افغان سیکیورٹی فورسز سمیت عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
پیر کو افغانستان کے شمالی صوبے سمنگان میں افغان انیٹلی جنس ایجنسی کی عمارت پر حملے میں 11 اہلکار ہلاک جب کہ 50 افراد زخمی ہوئے جن میں عام شہری بھی شامل تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔
طالبان کا موقف ہے کہ سمنگان میں کارروائی افغان سیکیورٹی فورسز کے حملوں کے ردِ عمل میں کی گئی۔
دوسری جانب مغربی ممالک کے فوجی اتحاد نیٹو نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں تشدد کی کارروائیاں بند کرے۔
نیٹو نے جامع بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے لیے تمام فریقین پر معاملات حل کرنے پر زور دیا ہے۔
نیٹو نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اضافے سے امن عمل سے متعلق اعتماد کمزور ہو رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کرونا وائرس کے اثرات کی وجہ سے نیٹو نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کریں جب کہ اس کا اطلاق تمام فریقین پر ہونا چاہیے۔
نیٹو نے افغان حکومت اور طالبان پر زور دیا کہ فوری طور پر قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاملات کو حل کر کے امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے معاہدے کے تحت ذمہ داریاں پوری کریں جب کہ بین الافغان مذاکرات شروع کریں۔
بیان کے مطابق کئی دہائیوں سے جاری افغان تنازعے کا سیاسی حل افغانستان کے باشندوں کی قیادت اور سر پرستی میں امن عمل ہی سے ممکن ہے اور یہی پائیدار امن و استحکام کا واحد راستہ ہے۔
نیٹو نے توقع ظاہر کی ہے کہ بین الافغان مذاکرات سے پائیدار اور جامع امن معاہدہ طے پا جائے گا جس سے افغانستان میں تشدد کا خاتمہ ہو گا۔