طورخم سرحد بندش، افغان طالبان کی پاکستان پر تنقید

فائل فوٹو

افغانستان میں برسرِ اقتدرا طالبان نے پاکستانی حکام کی جانب سے طورخم بارڈر کی بندش اور افغان سیکیورٹی فورسز پر مبینہ فائرنگ کے واقعے کو اچھی ہمسائیگی کی روایات کے خلاف کارروائی قرار دیا ہے۔

گزشتہ روز ہفتے کو افغان دفترِ خارجہ کی جانب سے پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر جاری بیان میں کہا گیا کہ بدھ کے روز افغان حکام اپنی سرحد کے اندر ایک پرانی چیک پوائنٹ کی تعمیر نو میں مصروف تھے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ان پر فائرنگ کی گئی۔

پاکستان افغانستان طورخم بارڈر کراسنگ بدھ کے روز سے تجارت اور عام شہریوں کی آمد و رفت کے لیے بند ہے جس کے بعد دونوں اطراف ہزاروں کی تعداد میں سامان سے لدے ٹرک کھڑے ہیں۔

SEE ALSO: پاک، افغان سرحد: تجارت میں سست روی کی شکایات کیوں بڑھ رہی ہیں؟

بیان کے مطابق پاکستان کی جانب سے اس اقدام کے بعد دونوں اطراف کی عوام اور تاجر شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

طالبان کا کہنا ہے کہ بارڈر کی بندش سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی اور علاقائی تجارت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

افغان طالبان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق حال ہی میں ایک افغان تاجر کے ٹرک پاکستان کی واہگہ سرحد کے راستے بھارت جانے والے ٹرک کو پولیس کی چوکی کے قریب نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ اس ٹرک کے ذریعے بھارت کو انجیر برآمد کی جا رہی تھی۔ اس واقعے کے بعد بدگمانی میں اضافہ ہوا ہے۔

SEE ALSO: چترال: افغان سرحد کے قریب جھڑپ، چار سیکیورٹی اہلکار اور 12 شدت پسند ہلاک

بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے افغانستان کے لیے بھیجے جانے والے سینکڑوں کنٹینروں کو کراچی پورٹ پر حساس لسٹ کے تناظر میں بھی روکا ہے۔

طالبان حکومت کے مطابق بدقسمتی سے سابقہ وعدوں، روایتی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان اکثر کراچی بندرگاہ پر رکاوٹیں پیدا کرتا ہے اور افغان زرعی اور پھلوں کی موسم کی آمد کے دوران بلاجواز بہانوں کے ذریعے کراسنگ پوائنٹس کو بند کر دیتا ہے جس سے نہ صرف دو طرفہ تجارت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان فاصلے بھی بڑھ جاتے ہیں۔

SEE ALSO: ٹی ٹی پی نے چترال کو کیوں ٹارگٹ کیا؟

طالبان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب طورخم کے دونوں جانب خواتین، بزرگ اور بچوں سمیت لوگ جنازے لیے پھنسے ہوئے ہیں، اس کراسنگ پوائنٹ کی بندش بلا جواز ہے۔

طالبان حکومت نے بارڈر کی بندش کے بجائے معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل پر زور دیا ہے۔

دوسری جاب پاکستان نے افغان چارج ڈی افیئر کو دفتر خارجہ بلا کر احتجاج کیا تھا۔

ماضی میں بھی طورخم سرحد کی بندش کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔

پاکستان کا ردِعمل

پاکستان نے افغانستان میں طالبان حکام کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ چھ ستمبر کو افغانستان کی جانب سے پاکستانی فوجی چوکیوں کو نشانہ بناتے ہوئے طورخم بارڈر ٹرمینل کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور افغان شہریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالا گیا۔

پاکستانی دفتر خارجہ کا یہ بیان پیر کو ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اتوار کو طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ نے طورخم سرحد کی بندش پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین کے اندر کسی غیر قانونی تعمیر کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ اُن کے بقول چھ ستمبر کو اس معاملے کے پرامن حل کے بجائے افغانستان کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کا سہارا لیا گیا۔

یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے اپنے بیان میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنی سرحد کے اندر ایک پرانی چیک پوائنٹ کی تعمیرِ نو میں مصروف تھے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ان پر فائرنگ کی گئی۔

ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق سرحدی چوکیوں پر اس طرح کی بلااشتعال اور اندھا دھند فائرنگ کو کسی بھی صورت جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ افغان بارڈر سیکیورٹی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ سے دہشت گرد عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور یہ عناصر افغانستان کے اندر پناہ گاہوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان تمام دو طرفہ مسائل اور خدشات کو تعمیری بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ دونوں ممالک اقتصادی رابطوں اور اس کے نتیچے میں خوشحالی کا فائدہ اٹھا سکیں۔