دیر بالا: پہلی بار ایک خاتون جنرل نشست پر انتخاب لڑیں گی

حمیدہ شاہد (فائل فوٹو)

پہاڑی ضلع دیر بالا میں پہلی مرتبہ خواتین نے رواں سال مارچ میں بلدیاتی نشستوں پر ضمنی انتخاب میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

خیبر پختونخوا کا علاقہ دیر خواتین کو حق رائے دہی استعمال نہ کرنے دینے کے روایتی غیراعلانیہ فیصلوں کی وجہ سے خبروں کی زینت بنتا رہا ہے، لیکن اب یہیں کی ایک خاتون صوبائی اسمبلی کے لیے جنرل نسشت پر انتخاب لڑنے کے لیے میدان میں اتر رہی ہیں۔

حمیدہ شاہد کو صوبے کی سابقہ حکمران جماعت 'پاکستان تحریک انصاف' نے دیربالا کے حلقہ 'پی کے 10' سے صوبائی اسمبلی کی امیدوار کا ٹکٹ جاری کیا ہے۔

وہ اس جماعت سے 2011ء سے وابستہ ہیں اور انھوں نے اسی علاقے سے تحصیل کونسلر کے لیے خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے بھی انتخاب میں حصہ لیا تھا لیکن ناکام رہی تھیں۔

روایتی طور پر دیر جماعت اسلامی کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے لیکن دیگر جماعتوں کو بھی یہاں قابل ذکر حمایت حاصل ہے۔ ماضی میں یہاں ہونے والے انتخابات کے دوران خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور مبینہ طور پر سیاسی جماعتیں ہی باہمی مشاورت سے خواتین کے اس حق کی تلفی میں کردار ادا کرتی رہی ہیں۔

اسی بنا پر دیر میں ہونے والے انتخابات کو عدالتوں میں چیلنج بھی کیا جاتا رہا جن میں انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے سامنے آ چکے ہیں۔

پہاڑی ضلع دیر بالا میں پہلی مرتبہ خواتین نے رواں سال مارچ میں بلدیاتی نشستوں پر ضمنی انتخاب میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن رخشندہ ناز کے خیال میں دیر بالا سے صوبائی اسمبلی کی جنرل نشست پر ایک خاتون کا بطور امیدوار سامنے آیا بہت خوش آئند ہے لیکن ان کے بقول حمیدہ شاہد کے لیے یہاں سے ووٹ حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا "میں سمجھتی ہوں کہ اس طرح کی خواتین جو نکل کر آ رہی ہیں وہ اس سوچ کو توڑنے کے لیے اچھا ہو گا اور یہ کہ عورتیں اس علاقے میں الیکشن میں حصہ لے سکتی ہیں اور ساتھ ساتھ جو ہماری سیاسی جماعتیں اور حکومتیں یہ کہتی ہیں کہ وہاں عورتیں خود ووٹ نہیں ڈالنا چاہتیں یہ اس سوچ کو بھی توڑنے کے لیے اچھا ہوگا کہ عورتیں جب مقابلے کے لیے تیار ہیں تو ووٹ ڈالنے کے لیے کیوں نہیں۔"

رخشندہ ناز نے کہا کہ گو کہ نئے انتخابی قانون کے تحت سیاسی جماعتوں کو اپنے امیدواروں میں سے پانچ فیصد خواتین کو ٹکٹس دینا ضروری قرار دیا گیا ہے لیکن اس پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے اس پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔