طالبان وفد کا دورہ پاکستان، افغان امن پیش رفت پر بات چیت

دفتر خارجہ آمد پر افغان طالبان کا وفد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ۔ 16 دسمبر 2020

پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے طالبان وفد نے ملا عبدالغنی بردار کی قیادت میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی سے بدھ کو اسلام آباد میں دفتر خارجہ میں ملاقات کی، جس میں بین الافغان مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت اور امن عمل کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا۔

طالبان وفد دورہ پاکستان کے دوران پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے بھی ملاقات کرے گا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان وفد کا پاکستان کا دورہ اہم فریقین سے رابطے رکھنے کی پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد 12 ستمبر سے شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنا ہے۔

پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسلام آباد افغانستان اور خطے میں پائیدار امن و استحکام اور خوشحالی کے لیے افغان تنازع کا جامع، وسیع البنیاد سیاسی تصفیے کی حمایت جاری رکھے گا۔

افغانستان کیلئے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق نے بھی کہا ہے کہ ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان کے وفد کی پاکستان آمد پاکستانی حکومت کی طرف سے دوحہ میں ہونے والی امن بات چیت کے حوالے سے افغانستان میں موجود تمام کلیدی فریقین سے رابطہ کاری کا حصہ ہے۔

انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاکستان وسیع بنیاد جامع سیاسی تصفیے کے ذریعے افغانستان میں پائیدار امن، استحکام اور خوشحالی کا خواہاں ہے۔

طالبان وفد کے دورہ اسلام آباد دو روز قبل امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت کے دورہ پاکستان کے بعد ہوا ہے۔ اس دورے کے دوارن افغانستان میں ریزولیوٹ سپورٹ مشن کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر بھی ہمراہ تھے۔ ملاقات میں پاکستان کی فوجی قیادت اور امریکی وفد نے افغان امن عمل اور خطے کی سیکیورٹی صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر پاکستانی فوج کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان خطے کے امن و استحکام کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرتا رہا ہے۔

طالبان کے نائب سربراہ اور طالبان کے قطر میں واقع سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی کی قیادت میں طالبان وفد کا دورہ پاکستان ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب قطر کے درالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات میں فریقین نے مشاورت کے لیے تین ہفتوں کے وقفے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ بات چیت کا آئندہ دور 5 جنوری کو شروع ہو گا۔

پاکستانی حکام اور طالبان کے وفد کے درمیان مذاکرات۔ 16 دسمبر 2020

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ طالبان وفد کے دورۂ پاکستان کا تعلق بین الافغان مذاکرات سے ہے۔

زاہد حسین کا کہنا ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں اگرچہ کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور فریقین نے بات چیت کا ایجنڈا طے کرنے کے قواعد و ضوابط وضح کر لیے ہیں، لیکن ابھی تک طالبان جنگ بندی پر رضامند نہیں ہوئے اور یہی ایک بڑا مسئلہ اس وقت درپیش ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور کابل یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک جنگ بندی نہیں ہوتی، اس وقت تک بات چیت میں کوئی اہم پیش رفت شاید ممکن نہ ہو۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ خلیل زاد کا تازہ دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی کہ کسی طرح طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کیا جا سکے۔ ان کے مطابق قبل ازیں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے دورؤ کابل کے دوران بھی بنیادی نکتہ یہی سامنے آیا تھا۔

لیکن دوسری طرف افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ شاید طالبان جنگ بندی پر فوری طور پر آمادہ نہ ہوں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے کچھ مطالبات مان لیے جاتے ہیں ان کے مزید قیدی رہا کر دیے جاتے ہیں اور ان کے رہنماؤں کے نام اقوام متحدہ کی تعزیرات ک فہرست سے نکال دیے جاتے ہیں تو شاید وہ اپنے حملوں میں کچھ کمی کر دیں۔ اور یہ کہ دوسری طرف طالبان امریکہ کے نو منتخب صدر کی پالیسیوں کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ اس سے پہلے شاید وہ جنگ بندی پر تیار نہ ہوں۔

مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔ 16 دسمبر 2020

رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ پاکستان طالبان سے کھلے عام تشدد میں کمی کرنے اور جنگ بندی کے لیے کہہ چکا ہے۔ اسلام آباد کے دورے میں بھی وہ دوبارہ اس بات کا اعادہ کرے گا، لیکن شاید طالبان فوری طور پر اس کے لیے تیار نہ ہوں۔

افغان حکومت نے طالبان وفد کے دورہ پاکستان کا خیر مقدم کیا ہے

افغانستان کی وزارت خارجہ نے آج بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ ماہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دورہ کابل کے دوران طالبان کے وفد کے دورہ پاکستان پر مشاورت کی گئی تھی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ملا برادر کی قیادت میں طالبان کے وفد کے دورہ پاکستان سے افہام و تفہیم کی کوششوں میں مدد ملے گی۔

افغانستان کیلئے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق نے بھی کہا ہے کہ ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان کے وفد کی پاکستان آمد پاکستانی حکومت کی طرف سے دوحہ میں ہونے والی امن بات چیت کو کامیاب بنانے کے سلسلے میں افغانستان میں موجود تمام کلیدی فریقوں سے رابطہ کاری کا حصہ ہے۔

انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاکستان وسیع بنیاد پر جامع سیاسی تصفیے کے ذریعے افغانستان میں پائیدار امن، استحکام اور خوشحالی کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان وفد اپنے تین روزہ دورے کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملے گا جس میں پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں اور دونوں ملکوں کے شہریوں کے سرحد پار آنے جانے میں حائل مشکلات اور دو طرفہ تجارت پر بھی گفتگو ہو گی۔

طالبان وفد کے ارکان مذاکرات کر رہے ہیں۔ 16 دسمبر 2020

طالبان وفد کے ساتھ بات چیت کے بعد وزیر خارجہ قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ ملاقات میں اس بارے میں تبادلہ خیال ہوا کہ ایک طرف مذاکرات کا عمل بھی جاری ہے، لیکن افغانستان میں جاری تشدد میں کمی کی توقع ابھی تک پوری نہیں ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام فریقوں کو تشدد میں کمی لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے طالبان کو باور کرایا ہے کہ ایک مستحکم افغانستان کے لیے ایک جامع تصفیہ ضروری ہے۔ اس کے بغیر افغانستان میں مستقل امن نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برداری کو ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کے لیے وہاں کی تعمیر نو اور ترقی میں اپنا کردا ادا کرنا ہو گا۔ تاکہ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی واپسی ممکن ہو سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان سے ہونے والی گفتگو سے طالبان کا امن کی طرف رجحان اور سنجیدگی کی عکاسی ہوتی ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ بدھ کو ملا برادار کی قیادت میں طالبان کے سیاسی کمشن کے وفد سے ان کی یہ تیسری ملاقات ہے۔ اس موقع پر طالبان کے چیف مذاکرات کار شیخ حکیم بھی موجود تھے۔

وزیر خارجہ نے کہا افغان امن عمل میں اب تک تین سنگ میل عبور ہو چکے ہیں، جن میں 29 فروری کا امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والا معاہدہ، بین الافغان مذاکرات کا شروع ہونا اور ان مذاکرات میں بات چیت کا ایجنڈا طے کرنے پر فریقین کے درمیان قواعد و ضوابط پر اتفاق کرنا ہے۔