'آزاد دنیا کی رہنما' 'معاہدوں کی مشین' اور 'سادگی پسند' اینگلا مرکل کا 16 سالہ سیاسی سفر ختم

اینگلا مرکل۔ 24 نومبر، 2021ء (فائل فوٹو)

جرمن چانسلر انگیلا مرکل کی سیاسی جدوجہد اور قیادت کا طویل اور متاثر کن سفر بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔

بدھ کے روز نئے جرمن چانسلر اولاف شولز بطور جرمن چانسلر اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔

بطور چانسلر اپنی آخری ہفتہ وار پوڈکاسٹ میں اینگلا مرکل نے جرمن عوام سے یہی گزارش کی کہ وہ کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگوائیں خواہ وہ ان کی پہلی ڈوز ہو، دوسری یا پھر بوسٹر۔

بائیس نومبر 2005 کو جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بن کر وہ پہلے ہی تاریخ رقم کر چکی تھیں مگر ان کی وراثت محض ملک کی پہلی خاتون سربراہ ہونا ہی نہیں تھا۔ آنے والے برسوں میں انہوں نے عالمی برادری میں جرمنی کا قد اور اثر و رسوخ بڑھانے اور ایک منقسم یورپی یونین کو جوڑے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

SEE ALSO: 'اچھے دوستوں میں عدم اتفاق بھی ہو سکتا ہے' جرمن چانسلر سے ملاقات کے بعد صدر بائیڈن کا بیان

ان کے کارناموں میں 2008 کے معاشی بحران سمیت جرمنی کو دیگر کئی بحرانوں سے نکالنا بھی شامل ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک طاقتور یورپی راہنما کے طور پر وہ خواتین کے لئے بھی عملی نمونہ ہیں۔

انگیلا مرکل سڑسٹھ سال کی عمر میں جرمن سیاست سے رخصت ہوئی ہیں اور اپنے سولہ سالہ دور حکومت میں انہیں اندرون اور بیرون ملک ہمیشہ پذیرائی حاصل رہی۔ گو کہ ایسا نہیں کہ ان کی شخصیت پر تنقید نہ ہوئی ہو مگر مجموعی طور پر ان کے کردار کو مثبت اور موثر ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔

سائنسدان سے سیاستدان کا سفر طے کرنے والی اینگلا مرکل کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں پیدا ہوئیں اور ان کا دور حکومت انہیں سیاست میں لانے والے اور ان کے استاد کہلائے جانے والے چانسلر ہلمت کوہل کے دور سے محض ایک ہفتہ ہی کم رہا ہے۔

تاریخ کے حوالوں میں شاید اینگلا مرکل کا نام ہلمت کوہل کی طرح مشرقی اور مغربی جرمنی کو جوڑنے جیسے تاریخی واقعات میں نہ آ پائے، مگر ان کی مضبوط شخصیت، بحرانوں سے نمٹنے کی غیر معمولی صلاحیت اور ایک مشکل دور کے باوجود یورپین قدروں کا دفاع کرنا ہمیشہ ان کی پہچان رہے گا۔

اپنے دور حکومت میں انہوں نے چار امریکی صدور، چار فرانسیسی صدور، پانچ برطانوی وزراء اعظم اور آٹھ اطالوی سربراہان کے ساتھ کام کیا۔

بطور جرمن چانسلر انہیں چار بڑے بحرانوں کا سامنا رہا جن میں عالمی مالیاتی بحران، یورپ کے قرضوں کی ادائیگی کا مسئلہ، 2015-2016 میں بڑی تعداد میں تارکین وطن کی آمد اور کرونا وائرس شامل ہیں۔

شام سے آنے والے پناہ گزینوں کو جگہ دینے پر انہیں بین الاقوامی میڈیا نے 'ماما مرکل' کا نام دیا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اینگلا مرکل کے قائدانہ کردار نے یقیناً دنیا میں جرمنی کا تاثر بہتر کیا ہے اور اسے ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی برادری مختلف امور پر جرمنی کو ایک مؤثر اور مفید کردار ادا کرنے والے ملک کے طور پر دیکھتی ہے۔

اکتوبر میں ہونے والی یورپی یونین سمٹ میں مختلف بین الاقوامی معاملات پر جرمنی کو اخلاقی سبقت دلوانے کے لئے سابق امریکی صدر براک اوبامہ نے اینگلا مرکل کا شکریہ ادا کیا تھا۔

کریمیا کے الحاق اور مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی مدد کرنے پر روس پر یورپی یونین کی پابندیاں لگوانے والی بھی مرکل ہی تھیں اور اس مسئلے کا سفارتی حل نکالنے والی ہستی بھی وہی۔ انہیں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے مذاکرات کے لئے پورے یورپ کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔

ماہرین کے مطابق، بطور سیاستدان اینگلا مرکل مسئلوں کے حل کے لئے کثیر الجہتی کوششوں پر یقین رکھتی تھیں، عالمی معاشی بحران ہو، شام جنگ کے دوران پناہ گزینوں کا نہ رکنے والا سلسلہ ہو یا پھر ماحولیاتی آلودگی، مرکل نے ملک کی سرحدوں سے نکل کر عالمی طاقتوں اور اداروں کو متحرک کرکے ان کا حل مشترکہ طور پر نکالنے کی کوشش کی۔

خود کو "آزاد دنیا کا راہنما" کہے جانے پر ان کا کہنا تھا کہ راہنمائی کسی ایک انسان یا کسی ایک ملک کا کام نہیں۔ مگر انتھک مذاکرات کے ذریعے بحرانوں اور مسائل سے نمٹنے پر یقین رکھنے والی مرکل کو یورپ میں ایک غیر معمولی لیڈر کا مقام حاصل تھا۔

لکسمبرگ کے وزیراعظم زیوئیر بیٹل کے مطابق مرکل "سمجھوتوں کی مشین" تھیں۔ ان کے بقول، یورپین یونین کے اپنے معاملات بھی جب اختلافات کی وجہ سے رک جاتے مرکل آگے بڑھ کے مذاکرات کرتیں اور اس کا حل نکال کر ہی چھوڑتیں۔

یورپین کونسل کے صدر چارلس مشیل نے آخری یورپین سمٹ میں انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ "آپ یادگار ہیں" ۔ چارلس مشیل کے بقول اینگلا مرکل کے بغیر یورپین سمٹ ایسی ہے، جیسے ویٹیکن کے بغیر پوپ یا آئیفل ٹاور کے بغیر پیرس۔

فوربز میگزین کی جانب سے لگاتار دس سال تک دنیا کی طاقتور ترین عورت کا خطاب پانے والی اینگلا مرکل دنیا کی دیگر خواتین راہنماؤں کی طرح لباس اور انداز میں جدت پسند اور ماڈرن نہیں تھیں لیکن ان کی یہی سادگی شاید لوگوں کو دلکش لگتی تھی۔ وہ چھٹیوں میں عام شہریوں کی طرح کبھی سڑک پر چلتی نظر آتیں تو کبھی سپر مارکیٹ میں سودا سلف خریدتی۔ وہ ملک کے سربراہ بننے کے بعد بھی اسی اپارٹمنٹ میں مقیم رہیں جس میں وہ ہمیشہ رہتی رہی تھیں۔