امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ امریکہ 2030 تک گرین ہاؤس گیسز کی آلودگی میں پچاس سے باون فی صد تک کمی کرے گا، کہا ہے کہ دنیا کو عہد کے ایک بڑے بحران پر ہر صورت غالب آنا چاہیے۔
یہ بات انہوں نے موسمیاتی تغیر پر عالمی راہنماوں کے ورچول اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں دنیا بھر سے چالیس ملکوں کے راہنما شرکت کر رہے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے صدر بائیڈن کے اعلان کی تعریف کرتے ہوئے اسے ’’ گیم چینجر‘‘ قرار دیا اور کہا کہ موسمیاتی تغیر کے خلاف لڑائی میں اس کے اثرات بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہوں گے۔
امریکہ آلودگی کے اخراج کی سطح سال دو ہزار پانچ تک لانے کا ہدف رکھتا ہے۔ وائٹ ہاوس کا کہنا ہے کہ اس سطح تک پہنچنے کے لیے کوششوں میں کاربن سے پاک بجلی، کاروں اور ٹرکوں میں تیل کے خرچ کو کم کرنا، صنعتی مقامات پر کاربن کے اخراج کو روکنا اور میتھین کے استعمال کو کم کرنا شامل ہیں۔
بین الاقوامی وعدے
سربراہ اجلاس کے منتظمین اور ماحولیات پر سرگرم کارکنوں کی توقع کے بر عکس، آبادی کے اعتبار سے دنیا کے دو بڑے ممالک چین اور بھارت نے جمعرات کو ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے کوئی نیا وعدہ نہیں کیا ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ ان کا ملک اگلے کئی سالوں تک کوئلے کے استعمال کو کنٹرول کرنے اور 2026 اور 2030 کے درمیان قدرتی ایندھن کے استعمال کو کم کرنے کی کوشش کرے گا۔ چین کے صدر نے چین کی جانب سے کاربن کے اخراج کو 2030 تک کم کرنے کے عزم ظاہر کیا۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے سال دو ہزار تیس کے صاف توانائی منصوبے کے لیے امریکہ کے ساتھ شراکت داری کا اعلان کیا۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گٹریز نے سربراہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ہمیں کرہ ارض کو ماحول دوست بنانے کی ضرورت ہے لیکن دنیا اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے انتہائی خطرات سے دوچار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بات یقینی بنانا ہے کہ ہمارا اگلا قدم صحیح سمت میں ہو۔ ان کے بقول دنیا بھر میں موجود راہنماوں کو اس بارے میں اقدامات کرنے چاہییں۔
کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی سال دو ہزار تیس تک گیسوں کے اخراج کو چالیس سے پینتالیس فیصد کم کرتے ہوئے اسے دو ہزار پانچ کی سطح پر لانے کے عزم کا اظہار کیا۔
جرمن چانسلر انگیلا مرکیل نے اس بارے میں خوشی کا اظہار کیا کہ امریکہ موسمیاتی سیاست پر دوبارہ تعاون کر رہا ہے۔
جرمن چانسلر نے صدر جو بائیڈن کو مخاطب کرتے ہوئے امریکہ کے اس کردار پر اور سربراہ کانفرنس کے انعقاد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سخت جانفشانی کا کام ہے اور کاروبار زندگی کو یکسر تبدیل کر دینے والا راستہ ہے۔
آن لائن سربراہ اجلاس میں بعض تکنیکی مسائل بھی پیش آئے۔ نائب صدر کاملا ہیرس اور صدر بائیڈن کے خطاب کے دوران شور اور ایکو (بازگشت) کا مسئلہ درپیش رہا۔
فرانس کے صدر کے ریکارڈ شدہ بیان میں بھی اس وقت خلل پیدا ہوا، جب امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو بولنے کی دعوت دی، جنہیں اس دوران کم از کم دو منٹ تک خاموش بیٹھے رہنا پڑا تھا۔
روس کے صدر نے کہا کہ ان کا ملک صاف توانائی کے منصوبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ترجیحی شرائط متعارف کرا سکتا ہے۔
جاپان اور برآزیل کے راہنماوں نے بھی اجلاس سے خطاب کیا۔
بڑے ممالک کے علاوہ چھوٹے ملکوں کو بھی اجلاس کے پہلے روز سنا گیا۔ انٹیگا، باربودا، کیریبین، گیبون اور ری پبلک آف مارشل آئی لینڈ جیسے ملکوں کے راہنماوں نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔ ان ملکوں کو موسمیاتی تغیر سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔
پاکستان کو دو رور قبل ہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ وائس آف امریکہ کے استفسار پر ماحولیات پر وزیراعطم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم نے بتایا کہ اجلاس میں وہ خود پاکستان کی نمائندگی کریں گے اور ماحولیاتی مسائل اور ان سے نمٹنے کی پاکستان کی کوششوں کا اعادہ کریں گے۔