ایڈز سے متعلق منفی رویوں کو تبدیل کرنے پر زور

فائل

ڈاکٹر بصیر نے مزید کہا کہ اس مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اخیتار کرنے کے ساتھ ایڈز سے متعلق منفی سماجی سوچ اور رویوں کو تبدیل کرنا نہایت اہم ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ایک سرکاری سروے کے مطابق ملک میں 'ایچ آئی وی' سے متاثر افراد کی تعداد ایک لاکھ 33 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے لیکن اس وقت نیشنل ایڈز کنڑول پروگرام اور دیگر اداروں کے ساتھ اندراج شدہ مریضوں کی تعداد صرف 22 ہزار پانچ سو ہے۔

پاکستان میں ایڈز کنٹرول پروگرام کے مینیجر ڈاکٹر بصیر اچکزئی کا کہنا ہے کہ اگرچہ ملک میں ایڈز کے مریضوں کو علاج کی فراہمی کے لیے قائم طبی مراکز کے باوجود اس مرض سے متعلق سماجی امتیاز اور خوف کی وجہ سے ایڈز سے متاثرہ افراد اپنی بیماری کو پوشیدہ رکھنے پر مجبور ہیں۔

یکم دسمبر کو ایڈز سے متعلق آگاہی کے عالمی دن کے موقع پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر بصیر نے کہا، "ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ وہ لوگ جن کے ایڈز سے متاثر ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے وہ ایڈز کا ٹیسٹ کرائیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستان میں 50 سے زائد مراکز قائم ہیں جہاں یہ ٹیسٹ مفت ہوتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "اگر وہ لوگ جو ایچ آئی وی پازٹیو ہیں اگر وہ اپنا ٹیسٹ نہیں کرائیں گے یا وہ اپنی بیماری سے آگاہ نہیں ہیں اور جب وہ نارمل افراد کے ساتھ (جنسی) تعلق قائم کرتے ہیں تو پھر ہمارے بس میں نہیں ہو گا کہ ہم اس کو کنٹرول کرلیں۔"

ڈاکٹر بصیر نے مزید کہا کہ اس مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اخیتار کرنے کے ساتھ ایڈز سے متعلق منفی سماجی سوچ اور رویوں کو تبدیل کرنا نہایت اہم ہے۔

"مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو اگر اپنی بیماری کے بارے میں پتا چل جاتا ہے تو وہ امتیازی سماجی رویوں کی وجہ سے اپنی بیماری کو ظاہر نہیں کرتے اور اگر وہ کسی عام ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو ان کے ساتھ سرد مہری کا برتاؤ روا رکھا جاتا ہے۔"

ڈاکٹر بصیر نے کہا کہ ایڈز سے متعلق سماجی آگاہی کو فروغ دے کر اس سے جڑے منفی سماجی رویوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔

"میں گزارش کروں گا کہ معاشرے کے وہ لوگ جن کی بات سنی جاتی ہے، جن کا عام لوگ احترام کرتے ہیں، وہ ایچ آئی وی کے بارے میں عوام کو بتائیں کہ یہ (ایڈز) ایک مرض ہے اور مرض کسی کو بھی لاحق ہو سکتا ہے، مرض سے نفرت کی جائے، مریض سے نہیں۔"

ڈاکٹر بصیر کا مزید کہنا تھا کہ ایڈز کے مسئلے پر صرف اُسی صورت قابو پایا جا سکتا ہے جب لوگ رضا کارانہ طور پر ایچ آئی وی ایڈز کی تشخیص کرانے اور اپنا علاج کرانے پر آمادہ ہوں۔