رسائی کے لنکس

پاکستان اور افغانستان کا ایڈز کے خلاف مربوط کوششوں پر اتفاق


پاکستان اور افغانستان کے تعلقات گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں اور اسلام آباد اور کابل دہشت گردی اور عکسریت پسندی کے معاملات سے نمٹنے کے لیے اپنے تئیں کوششیں کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں ملک صحت عامہ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کرتے رہتے ہیں۔

دونوں ملکوں کو پولیو وائرس کے چیلنج کا سامنا جس کے خاتمے کے لیے دونوں ملک اپنی اپنی کوششوں کو مربوط کرنے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے ہیں اور اب اسلام آباد اور کابل نے ایڈز کے مرض سے نمٹنے کے لیے اپنے کوششوں کو مربوط کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اس سلسلے میں رواں ہفتے افغانستان کے نیشنل ایڈز کنڑول پروگرام سے منسلک ایک وفد نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا جس دوران انہوں نے پاکستانی عہدیداروں سے ایچ آئی وی اور ایڈز سے نمٹنے کے لائحہ عمل اور تکنیکی امور کے بارے میں بات کی۔

اس کے علاوہ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان سفر کرنے والے افراد کے بارے میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے معاملے پر بات کی تاکہ ان افراد کی نشاندہی کی جا سکے جو 'ایچ آئی وی' سے متاثر ہیں۔

اقوام متحدہ کے 'ایچ آئی وی' اور ایڈز پروگرام سے منسلک عہدیدار مسعود فرید ملک نے کہا ہے کہ یو این ایڈز پروگرام دونوں ملکوں کے نیشنل ایڈز کنڑول پروگرام کو مشترکہ طور پر 'ایچ آئی وی' اور ایڈز سے نمٹنے میں مدد فراہم کرے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نےکہا کہ 'ایچ آئی وی' اور ایڈز سے نمٹنے کے لیے دونوں ملکوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا نہایت ضروری ہے۔

پاکستان عہدیدروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پشاور، کوئٹہ اور دیگر کئی شہروں میں ایڈز کے مرض سے متاثرہ سیکڑوں کی تعداد میں افغان شہریوں کو پاکستان نیشنل ایڈز کنڑول پروگرام کے تحت طبی علاج کی سہولیات فراہم کیں ہیں ۔

پاکستان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ملک میں ایچ آئی وی سے متاثرہ لگ بھگ ایک لاکھ افراد میں سے 80 ہزار سے زائد افراد ایسے ہیں، جو ممکنہ طور پر ایچ آئی وی اور ایڈز سے متاثر ہونے کے باوجود اپنی بیماری سے متعلق لاعلم ہیں۔ ان میں سے صرف اٹھار ہزار پانچ سو مریض ایسے ہے جو نشینل ایڈز پروگرام کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔

دوسری طرف یو این ایڈز پروگرام کے اندازوں کے مطابق افغانستان میں ایسے افراد کی تعداد چھ ہزار نو سو ہے ہے جو ایڈز سے متاثر ہیں اور ان میں ایک ہزار نو سو خواتین ہیں۔

XS
SM
MD
LG