افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جاری کوششوں میں ایران کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ کسی بھی تصادم کی صورت میں امریکہ کو ایران کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنی چاہیے۔
جمعرات کو کابل میں افغانستان کی سیکورٹی صورتِ حال سے متعلق کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ افغانستان کے عوام بیرونی سمجھوتوں کے بجائے اپنی سرزمین پر امن چاہتے ہیں۔
سابق صدر کا کہنا تھا کہ "افغان عوام کے نزدیک امن کا مطلب جنگ کا خاتمہ, خود مختاری اور ایک باوقار زندگی کا آغاز ہے۔ ان کے بقول افغان عوام ہمسائیہ ممالک کے ساتھ مثالی تعلقات اور اپنی سرزمین کو داعش یا دیگر مسلح گروہوں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسا افغانستان چاہتے ہیں جس کے امریکہ سمیت مغربی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں اور جہاں دوسرے ممالک کے مفادات کا تحفظ نہ ہوتا ہو۔
حامد کرزئی کے بقول انھوں نے امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد سے ملاقات میں کہا تھا کہ وہ امن عمل کے لیے امریکہ کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔
سابق افغان صدر کا کہنا تھا کہ افغان جانتے ہیں کہ جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور پاکستان کا بنیادی کردار ہے کیوں کہ انہی ممالک نے یہاں جنگ چھیڑی تھی۔
انھوں نے واضح کیا کہ افغانستان کے تمام ہمسائیہ ممالک بشمول ایران کو اعتماد میں لے کر ہی افغانستان میں دیرپا امن ممکن ہے۔
حامد کرزئی کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ اور طالبان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات کے اب تک سات ادوار ہو چکے ہیں۔
رواں ماہ افغانستان کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے 60 کے لگ بھگ مندوبین نے بھی دوحہ میں طالبان سے براہِ راست مذاکرات کیے تھے۔
اس سے قبل رواں سال کے آغاز میں روس کے دارالحکومت ماسکو میں بھی افغان دھڑوں کے مابین مذاکرات ہوئے تھے جس میں حامد کرزئی نے بھی شرکت کی تھی۔
امریکہ اور طالبان دونوں ہی پر امید ہیں کہ افغان تصفیے کے لیے کافی پیش رفت ہو چکی ہے اور باقی ماندہ اختلافی معاملات بھی آئندہ چند ماہ میں طے پاجائیں گے۔
سابق افغان صدر کی جانب سے ایران کو بھی افغان امن عمل پر اعتماد میں لینے کے مطالبے پر تاحال امریکہ کو کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ اور ایران کے تعلقات ان دنوں سخت کشیدہ ہیں۔