حافظ سعید اور متعدد کشمیریوں کےخلاف دہشت گردی کی مبینہ فنڈنگ کا مقدمہ

حافظ محمد سعید، سربراہ جماعت الدعوة۔ فائل فوٹو

یوسف جمیل

بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی یا این آئی اے نے جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید، عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین اور دس دوسرے افراد کے خلاف نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں ٹیرر فنڈنگ کے الزام میں فردِ جرم عائد کردی ہے۔

جمعرات کو نئی دہلی کے پٹیالہ ہاؤس میں قائم کی گئی ایک این آئی اے خصوصي عدالت میں دائر کی گئی 12794 صفات پر مشتمل چارج شیٹ میں ملزمان پر نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں علیحدگی کی تحریک چلا کر حکومت کے خلاف جنگ چھیڑ نے کی سازش کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ چارج شیٹ تعزیراتِ ہند اور 1967 سے نافذ غیر قانونی سرگرمیوں کے انسدادِ سے متعلق قانون کی مختلف دفعات کے تحت دائر کی گئی ہے۔

چارج شیٹ کے مطابق اس سازش میں حافظ سعید اور سید صلاح الدین کے ساتھ ساتھ سرکردہ کشمیری علیحدگی پسند آفتاب ہلالی احمد شاہ عرف شاہد الاسلام، الطاف احمد شاہ عرف فنتوش، نعیم احمد خان، فاروق احمد ڈار عرف بِٹہ کراٹے، محمد اکبر کھانڈے عرف ایاز اکبر، راجہ معراج الدین کلوال اور بشیر احمد بٹ ، تاجر ظہور احمد وٹالی ، پریس فوٹو گرافر کامران یوسف اور بھارتی کنڑول کے کشمیر کا ایک اور باشندہ جاوید احمد بٹ شامل تھے۔

حافظ سعید ایک پاکستانی شہری ہیں اور جماعت الدعوة اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے سربراہ ہیں۔ ان دونوں تنظیموں کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی اور امریکہ دہشت گرد تنظیمیں قرار دے چکے ہیں جبکہ امریکہ نے حافظ سعید کی گرفتاری میں مدد دینے پر ایک کروڑ ڈالر انعام مقرر کر رکھا ہے۔ تاہم پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے حال ہی میں کہا تھا کہ حافظ سعید کے خلاف پاکستان میں کوئی مقدمہ درج نہیں ہے لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کا کوئی جواز نہیں ہے۔

سید صلاح الدین کا تعلق نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع بڈگام کے سویہ بُگ گاؤں سے ہے لیکن وہ تقریباً25 برس پہلے جب علاقے میں عسکری تحریک عروج پرتھی اور اس کے خلاف بھارتی فوج کارروائیاں کر رہی تھی، سرحد پار چلے گئے تھے اور وہاں سے بھارتی کشمیر میں میں اپنی سرگرمیاں ں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں گزشتہ سال جون میں امریکہ کے محکمہ خارجہ نے دہشت گراد قرار دیکر عالمی دہشت گردی کی خصوصي فہرست میں شامل کرلیا تھا۔

دیگر افراد کو این آئی اے نے 2017 کے وسط میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں ڈالے گئے چھاپوں کے دوران گرفتار کیا تھا۔ اس سے پہلے 30 مئی 2017 کو اس نے علاقے میں مبینہ طور پر دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور عوامی سطح پر بدامنی کو طول دینے کے لئے پاکستان اور بعض دوسرے ممالک سے حوالہ یا غیر قانونی چینلز کے ذریعے سے بھاری رقوم حاصل کئے جانے کے سلسلے میں باضابطہ مقدمہ درج کیا تھا۔

این آئی اے کے مطابق، تحقیقات کے سلسلے میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر ، بھارتی ریاست ہریانہ اور دِلی میں 60 سے زائد مقامات پر چھاپے ڈالے اور اس دوران 950 اہم دستاویزات اور 600 الیکٹرانک آلات ضبط کئے گئے جبکہ تین سو سے زائد گواہوں سے پوچھ گچھ کی گئی۔

چارج شیٹ میں استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس پر نئی دہلی کے زیر انتظام کشمیر میں گڑ بڑ پیدا کرنے اور شورش کو بڑھاوا دینے کے لئے کارکنوں کی ایک مستقل جمعیت تیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ چارج شیٹ کے مطابق، یہ کارکن خصوصی طور پر مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں نوجوانوں کو بھارتی حفاظتی دستوں اور ملک کی حاکمیت کی تمام علامات پر حملے کرنے کے لئے اکسا تے رہے۔

یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ حافظ سعید، سید صلاح الدین اور انہیں استعمال کرنے والے پاکستانیوں نے، نئی دہلی کے کنٹرول کے کشمیر میں سرگرم علیحدگی پسندوں کی مدد سے پُرتشدد مظاہروں کے لئے حکمتِ عملیاں ترتیب دیں اور انہیں نجام دینے کے لئے اخبارات، سوشل میڈیا اور مذہبی لیڈروںکا استعمال کیا۔

چارج شیٹ دائر کئے جانے کو فوراً بعد استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے سری نگر میں عجلت میں بلائي گئی ایک نیوز کانفرنس میں این آئی اے کے تمام الزامات کو مسترد کیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کے مقدمے کے خلاف کشمیری راہنماؤں کا ردعمل

نیوز کانفرنس میں میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے فردِ جرم کو بے بنیاد ، جھوٹ پر مبنی اور من گھڑت قرار دے دیا اور الزام لگایا کہ این آئی اے نے گرفتار کئے گئے افراد کو عملی طور پر اغوا کیا تھا اور پھر انہیں دِلی کی تہاڑ جیل میں بند کردیا گیا- انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیریوں کی حق پر مبنی تحریکِ مزاحمت کو جان بوجھ کر دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرنے کو کوششیں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کشمیر پر بھارت کی بّری فوج کے سربراہ جنرل بِپِن راوت کی طرف سے دیئے گئے حالیہ ببانات کو اسی سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا۔