رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں ٹیرر فنڈنگ کیس کی تحقیقات جاری


سری نگر (فائل)
سری نگر (فائل)

جن افراد کو گرفتار کرکے دلی کی مختلف جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے اُن میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں سے وابستہ کئی سرکردہ کارکن، ایک ممتاز تاجر، ایک وکیل اور ایک فوٹو جرنلسٹ بھی شامل ہیں

بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی، ’نیشنل انوسٹگیٹنگ ایجنسی (این آئی اے)‘ نے گزشتہ تین ماہ کے دوران نئی دہلی کے زیر انتظام کشمیر میں بیسیوں مقامات پر چھاپے مارے ہیں اور ایک درجن کے قریب گرفتاریاں عمل میں لائی ہیں۔

جن افراد کو گرفتار کرکے دلی کی مختلف جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے اُن میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں سے وابستہ کئی سرکردہ کارکن، ایک ممتاز تاجر، ایک وکیل اور ایک فوٹو جرنلسٹ بھی شامل ہیں، جبکہ کئی افراد کے سمن جاری کئے گئے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ جن اہم شخصیات کو این آئی اے کی تازہ کارروائی میں نئی دہلی میں واقع اس کے صدر دفاتر پر پیش ہونے کے لئے کہا گیا تھا اُن میں تاجروں، صنعتکاروں اور کارخانہ داروں کی انجمنوں کے ایک اتحاد ’کشمیر اِکنامک ایلائنس‘ کے چئیرمین، محمد یاسین خان اور کشمیر یونیورسٹی کا ایک اسکالر اعلیٰ فاضلی شامل ہیں۔

سرکردہ آزادی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی کے فرزند نسیم گیلانی کے بھی ’این آئی اے‘ کے سامنے دوبارہ پیش ہونے کے لئے سمن جاری کئے گئے ہیں۔ نئی دہلی سے اطلاعات مظہر ہیں کہ محمد یاسین خان اور اعلیٰ فاضلی سے این آئی اے کے افسران نے دن بھر پوچھ گچھ کی۔

این آئی اے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں مبینہ ٹیرر فنڈنگ معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بعض دوسرےممالک سے حوالہ یا غیر قانونی چینلز کے ذریعے بھاری رقومات حاصل کی گئیں جنہیں شورش زدہ علاقے میں دہشت گردی کو فروغ اور عوامی سطح پر بدامنی کو طول دینے لے لئے استعمال کیا گیا۔

تحقیقاتی ایجنسی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر، دلی اور بھارتی ریاست ہریانہ کے مختلف مقامات پر ڈالے گئے چھاپوں کے دوران بھاری رقومات جن کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں تھا، تجریمی دستاویزات، موبائیل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ ضبط کئے گئے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں چند روز پہلے یہ خبر آئی تھی کہ ملزموں میں سے دو نے سلطانی گواہ بننے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں، تاجر انجمنوں اور وکلاء کی تنظیم کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے لیڈروں اور کارکنوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جارہا ہے۔ نیز، ان کے اپنے الفاظ میں، ’’کشمیریوں کی حق پر مبنی جدوجہد کو بدنام کرنے اور اس کے ساتھ دہشت گردی کا لیبل نتھی کرکے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘‘۔

چنانچہ، پیر کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں این آئی اے کی کارروائیوں کے خلاف ایک عام ہڑتال کی گئی۔ ہڑتال کے لئے اپیل کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینوفیکچررز فیڈریشن نے کی تھی اور اس کی توثیق سرکردہ آزادی پسند لیڈروں کے ایک اتحاد نے کی تھی۔ ہڑتال کی وجہ سے مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا۔

دارالحکومت سری نگر میں تاجروں نے ایک خاموش احتجاجی ریلی میں حصہ لیا۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں نے سرینگر کے حساس علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں عائید کیں، ریل سروسز کو معطل رکھا گیا، جبکہ تعلیمی اداروں میں بھی تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا۔ عہدیداروں نے کہا کہ یہ اقدامات حفظِ ما تقدم کے طور پر اُٹھائے گئے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG