ملائیشیا میں مقیم بھارت کے اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے متنازع بیان پر معافی مانگ لی ہے۔ تاہم، ملائیشیا کی سات ریاستوں نے اُن کے عوامی خطاب پر پابندی عائد کر دی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بھارت میں منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا ہے اور ان کے خلاف مقدمات بھی درج ہیں، جس کی وجہ سے وہ کچھ عرصے سے ملائیشیا میں مقیم ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، ذاکر نائیک نے ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ "ملائیشیا میں ہندوؤں کو بھارت کی مسلم اقلیت کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ حقوق حاصل ہیں۔"
ملائیشیا میں نسلی و دینی معاملات کو انتہائی حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کی تین کروڑ 20 لاکھ کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 60 فیصد ہے جبکہ 40 فیصد دیگر مذاہب کے ماننے والے یہاں آباد ہیں۔
ملائیشین پولیس نے متنازع بیان دینے پر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے دس گھنٹے تک تفتیش کی جس کے بعد انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کر لی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے معافی نامے میں کہا ہے کہ وہ اپنے بیان پر معذرت چاہتے ہیں۔ لیکن، وہ نسل پرست ہرگز نہیں ہیں۔ اُن کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ "کسی بھی فرد یا برادری کی دل آزاری میرا مقصد ہرگز نہیں تھا۔ یہ اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہے۔ میں تہہ دل سے اس غلط فہمی پر معذرت چاہتا ہوں۔"
ڈاکٹر ذاکر نائیک ملائیشیا کی مستقل سکونت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کئی وزرا نے انہیں ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جس پر ملائیشیا کے وزیرِ اعظم مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ حکومت اس معاملے کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور اگر وہ قصور وار پائے گئے تو اُن کی مستقل سکونت کی حیثیت کا فیصلہ کیا جائے گا۔
ملائیشیا کے سرکاری ٹی وی کے مطابق وزیرِ اعظم مہاتیر محمد نے اتوار کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام کی تبلیغ کرنے کے حوالے سے آزاد ہیں۔ تاہم، وہ ملائیشیا کی نسلی سیاست پر رائے زنی نہیں کر سکتے۔