رسائی کے لنکس

یوٹیوبر عون علی کھوسہ کی واپسی؛ 'مختصر مدت کے لیے لوگوں کو اُٹھانا نیا طریقہ ہے'


  • عون علی کھوسہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب اپنے گھر واپس پہنچ گئے تھے۔
  • عون علی کھوسہ کو 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب نامعلوم افراد اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔
  • عون علی کھوسہ کی طبیعت ٹھیک ہے، لیکن تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہیں: اہلیہ عون علی کھوسہ
  • اپنی گمشدگی سے متعلق کوئی بات نہیں کرنا چاہتا: عون علی کھوسہ

لاہور -- 'دِل دِل پاکستان' کی پیروڈی 'بِل بِل پاکستان' بنانے والے گلوکار یو ٹیوبر عون علی کھوسہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔ تاہم ملک میں جبری گمشدگی کا معاملہ ایک بار پھر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

اہلِ خانہ کے مطابق عون علی کھوسہ کی طبیعت ٹھیک ہے۔ لیکن اُن کے چہرے سے تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہیں جس کے باعث وہ کسی سے بھی بات نہیں کر رہے۔

عون علی کھوسہ کی اہلیہ بینش اقبال کے مطابق اُنہیں اتوار اور پیر کی درمیانی رات ایک فون کال آئی کہ کیا اُن کے شوہر واپس گھر پہنچ چکے ہیں؟ جس پر اُنہوں نے جواب دیا کہ “وہ ابھی تک گھر نہیں آئے ہیں تو ٖٖفون کرنے والے شخص نے بتایا کہ 10 منٹ تک گھر پہنچ جائیں گے۔"

اُن کے بقول فون بند ہوتے ہی اُنہوں نے اپنے شوہر کے نمبر پر وٹس ایپ کال کی تو رنگنگ لکھا ہوا آیا اور وہ 10 منٹ کے بعد گھر پہنچ گئے۔ بینش اقبال کے مطاق گھر آتے ہیں اُن کے شوہر نے کھانا مانگا اور کہا کہ وہ بہت تھکے ہوئے ہیں، سونا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ عون علی کھوسہ نے 'دِل دِل پاکستان' کی پیروڈی 'بِل بِل پاکستان' بنائی تھی جس میں پاکستان میں بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کی مزاحیہ انداز میں منظر کشی کی گئی تھی۔

گانا منظرِ عام پر آنے کے بعد اُنہیں 14 اور 15 اگست کی رات لاہور میں اُن کے گھر سے مبینہ طور پر نامعلوم افراد اُنہیں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

عون علی کھوسہ کی اہلیہ نے بتایا تھا کہ ایک بڑی گاڑی اور ویگو میں آنے والے آٹھ سے نو نقاب پوش افراد گھر کی کھڑکی اور دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گئے تھے اور عون کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

عون علی کھوسہ کا اپنے مبینہ اغوا کی تفصیلات بتانے سے گریز

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عون علی کھوسہ نے اپنے مبینہ اغوا سے متعلق تفصیلات بتانے سے گریز کیا ہے۔

اس سوال پر وائس آف امریکہ سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے عون علی کھوسہ کا کہنا تھا کہ "وہ بالکل ٹھیک ہیں، وہ کہاں تھے۔ کون لے گیا تھا اور کیوں لے گیا تھا اِس بارے وہ کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتے۔”

وائس آف امریکہ کے اس سوال پر کہ کیا دورانِ گمشدگی اُن کے کھانے اور آرام کا خیال رکھا گیا تھا؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ "اس موضوع پر وہ کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔"

عون علی کھوسہ کی بازیابی کے لیے اُن کی اہلیہ بینش اقبال کے توسط سے عدالتِ عالیہ لاہور میں درخواست دائر کی گئی تھی۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ عون علی کھوسہ قانون نافذ کرنے والی اتھارٹیز کی غیر قانونی حراست میں ہیں جنہیں بازیات کرایا جائے۔

خیال رہے کہ طنزیہ اشعار لکھنے پر گمشدگی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اِس سے قبل رواں برس پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے شاعر اور صحافی احمد فرہاد بھی لاپتا ہو گئے تھے اور کئی روز بعد پولیس نے اُن کی گرفتاری ظاہر کی تھی۔

احمد فرہاد نے نظم “یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے اِسے اُٹھا لو” لکھی تھی۔

مبصرین کے مطابق ملک بھر میں مختصر مدت کی مبینہ طور پر جبری گمشدگی کے واقعات میں حالیہ سالوں میں اضافہ ہوا ہے جس میں نو مئی کے بعد سے تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مختصر یا طویل عرصے بعد گھر پہنچنے والے زیادہ تر افراد کھل کر اپنے اُوپر بیتنے والے حالات کا ذکر نہیں کرتے۔

انسانی حقوق کی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری کہتی ہیں کہ پہلے طویل دورانیے کے لیے جبری گمشدگیوں کے واقعات سامنے آتے تھے۔ لیکن 2022 کے بعد چند روز کے لیے لوگوں کو اُٹھا کر چھوڑ دینے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور یہ ایک طرح سے نیا ٹرینڈ ہے۔

واضح رہے کہ سن 2022 پاکستان کی سیاست میں ایک ہنگامہ خیز سال تھا۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں پاکستان ڈیمو کریٹک (پی ڈی ایم) کی حکومت بنی تھی جب کہ اسی برس جنرل عاصم منیر فوج کے سربراہ بنے تھے۔ اس دوران سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فوجی قیادت اور ریاستی اداروں کے خلاف پوسٹس میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ مختصر مدت کے لیے کسی کو غائب کرنے کا مقصد ڈرا دھمکا کر خاموش کرانا ہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر ایک صحافی کو ایک ہفتے کے لیے اِس لیے اُٹھا لیا جاتا ہے کہ وہ خبر نہ چھاپے یا کسی افسر کو اِس لیے مبینہ طور پر اغوا کر لیا جاتا ہے کہ وہ غیر قانونی حکم نہیں مان رہا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اٹھانے والے صرف اُٹھائے جانے والے کو ہی پیغام نہیں دیتے بلکہ اُس شعبے میں کام کرنے والے دیگر افراد کو بھی یہ میسج دیا جاتا ہے کہ یہ عمل اُن کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ مختصر مدت کی گمشدگیوں کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آئینی اداروں نے لوگوں کی بازیانی کے لیے اقدمات کیے ہیں۔ جس کے باعث لوگوں کو مختصر مدت کے لیے اُٹھایا جاتا ہے جب کہ طویل مدت کے لیے جبری طور پر گمشدہ افراد کے مقدمات تاحال چل رہے ہیں۔

'اُن لوگوں کو اُٹھایا جاتا ہے جن پر کوئی کیس نہیں بنتا'

ماہرِ قانون خدیجہ صدیقی سمھتی ہیں کہ پاکستان کا قانون ِاس بارے میں بہت واضح ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے گرفتار کر کے 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کو صرف اِس لیے اُٹھا لیا جاتا ہے کہ اُن کے خلاف کوئی کیس نہیں بنتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کرنے یا طاقت کے زور پر اغوا کرنے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

'بھائی پر کوئی جرم ثابت ہو تو اسے پھانسی دے دیں لیکن لاپتا نہ کریں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:49 0:00

'ایسے واقعات سے ریاست کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے'

پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) ملک بھر میں جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے اور مطالبہ کرتی رہتی ہے کہ ایسے افراد کی جلد از جلد بازیابی کو یقینی بنایا جائے۔

ایچ آر سی پی کے چیئرمین اسد بٹ کہتے ہیں کہ عون علی کھوسہ جیسے واقعات سے ریاست کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب ریاست کے پاس عوامی مسائل کا حل اور لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کا طریقۂ کار نہ ہو تو پھر ڈرانے دھمکانے والا حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں اور حکومتوں میں قوتِ برداشت نہیں رہی۔ پوری دنیا میں لوگ ریاست پر تنقید کرتے ہیں۔ ریاست اُس کا جواب دینے کے بجائے اُس کو برداشت کرتی ہے۔ لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے۔

پاکستان کے ریاستی اداروں کی جانب سے عون علی کھوسہ سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ تاہم ماضی میں ریاستی ادارے شہریوں کو جبراً لاپتا کرنے کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

اُٹھائے جانے والے افرد خاموش کیوں رہتے ہیں؟

خدیجہ صدیقی کی رائے میں ایسے افراد کے لیے ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے کہ “سافٹ ویئر اَپ ڈیٹ کر کے اُن کو چھوڑ دیا گیا ہے۔"

اُن کا کہنا تھا کہ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور جن لوگوں کو اُٹھایا جاتا ہے وہ ڈر کے مارے کسی سے کوئی بات نہیں کرتے۔

ایمان مزاری کی رائے میں طویل مدت کی گمشدگی ہو یا مختصر مدت کی گمشدگی دونوں صورتوں میں اُٹھانے جانے والے افراد کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اگر وہ کسی سے بات کریں گے۔ تو اُن کے خاندان کے کسی دوسرے فرد کو بھی اُٹھایا جا سکتا ہے۔

کیا اُٹھائے جانے والوں کے آرام اور کھانے کا خیال رکھا جاتا ہے؟

وکیل ایمان مزاری کہتی ہیں کہ جبری گمشدگیوں سے واپس آنے والے افراد بتاتے ہیں کہ اُن کے سامنے دیگر افراد کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ ایک دلچسپ سوال ہے جو شاعر احمد فرہاد کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی زیرِ بحث آیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ عدالت نے دورانِ سماعت یہ سوال اُٹھایا کہ جو سیف ہاؤس یا ڈیٹینشن سینٹر ہیں اِن میں لوگوں کو کھانا اور ادویات تو دی جاتی ہو گی؟ تو اِس کے اخراجات کتنے ہیں؟ جس پر وہ کیس تو ختم ہو گیا تھا لیکن خفیہ ایجنسیوں کو عدالت میں اس سوال کا جواب جمع کرانا چاہیے۔

خدیجہ صدیقی کہتی ہیں کہ اگر عدالتیں جبری گمشدگی کے واقعات پر سختی کریں تو کسی بھی شخص کو زیادہ دیر تک غیر قانونی حراست میں رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کسی شخص کو اسلام آباد کی حدود سے اُٹھایا جاتا ہے اور معاملہ عدالت تک پہنچتا ہے تو اُٹھائے جانے والے شخص کے دو سے تین روز کے اندر اُس پر کوئی مقدمہ درج کر لیا جاتا ہے یا وہ شخص بازیاب ہو جاتا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG