سن بلوغت يعني 13 يا 14 سال کي عمر ميں پہنچنے کے بعد ، اکثر بچوں کے رویے میں غیر معمولي تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔ وہ زيادہ حساس ہو جاتے يں ، والدين سے دور ہونے لگتے ہيں اور والد ين کی روک ٹوک پر موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہيں يا ان سے گفتگو کم کردیتے ہيں۔
بالغ ہوتے ہوئےبچوں کے رويے ميں اس غير معمولي تبديلي کے وجوہات کيا ہيں ؟
پاکستان سے معروف ماہر نفسيات ڈاکٹر حارث برقي کہتے ہیں کہ عمر کے اس خاص حصے ميں رويے ميں تبديلي ايک فطري عمل ہے جس کي سب سے بڑي وجہ جسم میں ہارمونز کی افزائش کا ايک دم بڑھ جانا ہے۔ جس سے بچہ اپنے اندر بے انتہا توانائي محسوس کرتا ہے اور وہ دنيا کو مختلف زاويے سے ديکھنے لگتا ہے ۔ اس ميں تجسس بڑھ جاتا ہے ۔ وہ ماں باپ اور بہن بھائيوں کے اثر سے باہر نکل کر دوستوں کے ساتھ زيادہ وقت گزارنا چاہتا ہے۔ اوران جسماني اور نفسياتي تبديليوں کا ایک نمایاں اثر یہ ہوتا ہے کہ عمر کے اس حصے میں اکثر بچوں ميں جلد غصے میں آجانے اور بحث میں الجھنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔
يہ صورتحال اکثر والدين کے لئے پريشان کن ہوتي ہے اور اکثر اوقات وہ اس پريشاني میں بچوں پر کڑی تنقید کرتے ہیں اورانہیں ڈانٹ ڈپٹ دیتے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے والدين سے دور ہو کر اپنے خول ميں سمٹنے لگتے ہيں ۔
ماہر نفسيات ڈاکٹر حارث کہتے ہیں کہ عمر کے اس حصے ميں رويے ميں تبديلي ايک فطري عمل ہے۔ اور والدين کو تنقيد يا روک ٹوک سے کام لينے کي بجائے ، گھر کے ماحول کو ايسا بنانا چاہیے کہ بچے کسي خوف کے بغير اپنے خيالات کا اظہار کر سکيں۔
وہ مشورہ دیتے ہیں والدین کو سخت رويہ اپنانے کي بجائے ، بچوں کے ساتھ دوستي کا رشتہ استوار کرنے کي کوشش کرني چاہيے اورگھر کے ماحول خوشگوار رکھتے ہوئے بچوں کو مناسب وقت دينا چاہيے ۔ ان کے مسائل کے حل کرنے ميں مدد دینی چاہيے کيونکہ بچوں کو زيادہ تران مسائل کے متعلق آگاہي نہيں ہوتي اور والدين کے سخت رويے کے باعث يا ڈانٹ کے خوف سے ان سے پوچھنے کي بجائے ، دوستوں سے مشورہ لينے لگتے ہيں اور اکثرصورتوں میں انہیں حاصل ہونے والی معلومات غلط ہوتی ہيں۔
ڈاکٹر حارث کہتے ہيں کہ يہي وہ عمر ہوتي ہے جب بچے والدين سے دور ہو کراحساس تنہائی سے پچنے کے لیے تمباکو نوشي اوردوسری کئي بري عادات کي طرف مائل ہو سکتے ہيں۔ اور سب سے نقصان دہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ شناخت کے بحران میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، جو نہ صرف بچوں کے مستقبل بلکہ ان والدين کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن جاتاہے۔
ڈاکٹر حارث برقی کا کہناہے کہ والدين کو يہ بات ذہن ميں رکھني چاہيے کہ بلوغت کا دور بچے کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اس ليے عمر کے اس دور میں داخل ہونے بچوں کے ساتھ برتاؤ ميں سمجھ داري، حوصلے ، پيار اورتحمل وبرداشت سے کام لينا والدین کے لیے انتہائي ضروري ہوجاتاہے اورانہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اب بچے نہیں رہے بلکہ بالغ ہورہے ہیں جنہیں روک ٹوک کرنے والے کی نہیں بلکہ ایک شفیق دوست کی ضرورت ہے۔