رسائی کے لنکس

یمن میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا ایک جائزہ


25 دسمبر کوامریکہ آنے والے ایک مسافر بردار ہوائی جہاز کو بم سے تباہ کرنے کی ناکام کوشش کے بعد دہشت گردی کے حوالے سے یمن کو اہم ملک سمجھا جانے لگا ہے۔یمن کی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے لیکن بعض ماہرین کویقین نہیں کہ یمن اپنے اس ارادے میں مخلص ہے ۔

بدھ کے روز سینٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کی سماعت میں محکمۂ خارجہ کے اسسٹنٹ سکریٹری جیفری فیلٹمین Jeffrey Feltman نے کہا کہ یمن کی حکومت نے حال ہی میں اپنے ملک میں القاعدہ کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے خلاف جنگ کرنے کے نئے عزم کا اظہار کیا ۔ انھوں نے کہا’’میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پچھلے چھ ہفتوں کے دوران حکومتِ یمن نے القاعدہ کی موجودگی کے خطرے پر کہیں زیادہ توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ یہ بڑی حوصلہ افزا علامت ہے۔ القاعدہ کے خطرے کے خلاف حکومت نے نئے عزم کا اظہار کیا ہے۔‘‘

لیکن اسی سماعت میں تجزیہ کاروں نے شبے کا اظہار کیا کہ یمن کے صدر علی عبداللہ صالح امریکہ کے قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری طرح شریک ہوئے ہیں۔ انھوں نے توجہ دلائی کہ یمن کی حکومت شمال میں Houthi باغیوں سے اور جنوب میں علیحدگی پسندوں سے جنگ میں مصروف ہے۔ American Enterprise کے تجزیہ کار فریڈرک کگان Frederick Kagan کہتے ہیں کہ القاعدہ صدر صالح کی اولین ترجیح نہیں ہے۔ انھوں نے کہا’’میرے خیال میں ہمارے لیے انہیں القاعدہ سے جنگ کے لیے آمادہ کرنا بہت مشکل ہوگا کیوں کہ ان کے خیال میں یہ گروپ ان کا دشمن نہیں بلکہ امریکہ کا دشمن ہے ۔ ا ن کی ترجیح ایسے دشمن سے لڑنا ہے جو بنیادی طور پر ان کی حکومت کے خلاف ہے۔‘‘
کرسمس کے دِن کے نا کام حملے کے مشتبہ ملزم 23 سالہ نائیجیرین عمر فاروق عبد المطلب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے حملے کے احکامات القاعدہ کی یمنی برانچ سے ملے تھے اور انھوں ہی نے اسے تربیت دی تھی۔ یمن کے امور کے ماہر پرنسٹن یونیورسٹی کے گریگوری جانسن Gregory Johnson نے سینٹ میں کہا کہ القاعدہ کے گروپ نے یمن میں خود کو اس لیے منظم کر لیا کیوں کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری کوششیں دوسرے علاقوں میں ، جیسے عراق اور افغانستان میں مرکوز تھیں۔ ان کے مطابق’’امریکہ اور یمن دونوں حکومتوں کی غفلت کی وجہ سےالقاعدہ کو دوبارہ خود کو منظم کرنے کا موقع مل گیا۔ القاعدہ نے گویا دوسرا جنم لیا ہے ۔ اس تنظیم نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ اور امریکہ کے درمیان پراپیگنڈے کی جنگ جاری ہے اور امریکہ یہ جنگ ہار رہا ہے ۔‘‘
محکمہ ٔ خارجہ میں انسداد دہشت گردی کے کو آرڈینیٹر ڈینیل بنجمن Daniel Benjamin نے کہا کہ امریکہ کی حکمت عملی یہ ہے کہ القاعدہ سے جنگ کے لیے یمن کی مدد کی جائے۔ ہماری کامیابی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ یمن کی حکومت میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندرسکیورٹی کے خطرات کا مقابلہ کر سکے اور اپنے لوگوں کو بنیادی سہولتیں اور اقتصادی ترقی کے مواقع فراہم کر سکے۔
لیکن یمن میں سابق امریکی سفیر باربرا بوڈائن Barbara Bodine نے سینٹ کی کمیٹی کو بتایا کہ یمن اور دہشت گردی کے معاملے میں امریکہ کو محتاط رہنا چاہیئے اور سب کو ایک لکڑی سے ہانکنے کی پالیسی نہیں اپنانی چاہیئے۔ ’’یمن کی آبادی عراق کی طرح فرقہ وارانہ بنیادوں پر منقسم نہیں ہے اور ہمیں اس مسئلے کو اس نقطۂ نظر سے نہیں دیکھنا چاہیئے ۔ یمن میں لسانی اور نسلی تقسیم بھی نہیں ہے جیسا کہ افغانستان میں ہے ۔ وہاں قبائلی تشدد اور افغانستان جیسا جنگی سرداروں کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ یمن ایک کمزور مملکت ہے لیکن وہ ناکام مملکت نہیں ہے۔ ہمیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ ہم کوئی ایسے اقدامات نہ کریں کہ وہاں حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔‘‘
محکمۂ خارجہ کے جیفری فیلٹمین نے کہا کہ امریکہ نے یمن کو پہلے ہی چھ کروڑ30لاکھ ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ بیشتر امداد انسداد دہشت گردی کے لیے ہے ۔ توقع ہے کہ امدادی رقم میں مزید اضافہ ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ 2006 میں یمن کے لیے پانچ اعشاریہ دو ارب ڈالر کی بین الاقوامی امداد کے وعدے کیے گئے تھے لیکن یمن میں نظم و نسق کی خراب صورتِ حال کے پیشِ نظر اس امداد کا بیشتر حصہ یمن نہیں پہنچا۔
اگلے ہفتے لندن میں افغانستان کے سلسلے میں ہونے والی ایک میٹنگ کے ساتھ یمن کے بارے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہونے والی ہے ۔
XS
SM
MD
LG