جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ نامی تنظیم کے ارکان کو یمن سے بہتر کوئی اور ٹھکانہ نہیں مل سکتا۔ بڑے بڑے شہروں کے باہر یمن کی حکومت کا کنٹرول برائے نام ہے جب کہ دیہی علاقوں میں قبائلی وفا داریاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور ملک میں آمد و رفت کی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے، باہر کے لوگوں کے لیے یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ اندرونی علاقوں میں کیا ہو رہا ہے ۔
افغانستان میں بھی اسی قسم کے حالات ہیں جن سے امریکا خود کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بیشتر فوجی ماہرین اسی قسم کے حالات میں امریکی فوجیں یمن بھیجنے کے خیال سے گھبراتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، اس ہفتے وائٹ ہاؤس القاعدہ سے وابستہ مقامی دہشت گرد گروپ کے خلاف ڈرون یعنی بغیر پائلٹ کے جہاز استعمال کرنے پر غور کر رہا ہے ۔عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ یمن میں بغیر پائلٹ والے جہاز پہلے ہی استعمال کیے جا چکے ہیں۔ یمن میں سرکاری عہدے دار تسلیم کرتے ہیں کہ ملک کے اندر امریکہ کے ڈرونز سے کام لیا جا رہا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایسے جہاز صرف انٹیلی جنس کی معلومات جمع کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، حملوں کے لیے نہیں۔ ہوائی حملے کسی کی طرف سے بھی ہو رہے ہوں، ان کی وجہ سے سویلین آبادی کے ہلاک و زخمی ہونے کے خلاف ردعمل ہوا ہے ۔
پرنسٹن یونیورسٹی میں یمن کے امور کے ماہر گریگ جانسن کہتے ہیں’’جہاں تک خالصتاً فوجی کارروائیوں کا تعلق ہے، امریکا کے پاس ایسا کچھ کرنے کی گنجائش نہیں ہے جس سے اس قسم کے نتائج نکل آئیں جو اوباما انتظامیہ چاہتی ہے اور جلدہی کوئی نتیجہ نکل آئے جو عام طور سے امریکہ کے سیاسی نظام کا تقاضا ہوتا ہے ۔‘‘
ایسے حالات میں سعودی عرب کا تعاون بے حد اہم ہے کیوں کہ جغرافیے ، نسل، اور زبان کے لحاظ سے ، سعودی باشندے آسانی سے القاعدہ کے مقامی دھڑوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔ سعودی لیڈر یوں بھی القاعدہ کے خلاف ہیں۔ ملک میں جو سعودی شہزادے انسدادِ دہشت گردی کا پروگرام چلارہے ہیں، ان کے ساتھ القاعدہ کی ٹکر ہو چکی ہے ۔ گریگ جانسن کہتے ہیں کہ القاعدہ نے اگست 2009 میں سعودی عرب کے نائب وزیرِ داخلہ پرنس محمد بن نائف کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بال بال بچ گئے۔ جزیرہ نمائے عر ب میں القاعدہ، محمد بن نائف کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتی ہے ۔
اس میں یہ بات بھی شامل کر لیجیئے کہ سعودی عرب بہت مالدار ملک ہے اور امریکا کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات ہیں۔ حال ہی میں اس نے امریکا سے ساٹھ ارب ڈالر مالیت کے فوجی سازو سامان خریدنے کے ایک سودے پر دستخط کیے ہیں۔ اس طرح وہ یمن میں قائم اس دہشت گرد گروپ کے خلاف جنگ میں قدرتی طور پر شراکت دار بن گیا ہے ۔اس ہفتے برطانیہ کے سابق وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے دبئی میں کہا کہ ہوائی جہاز کے سامان میں بم رکھنے کے واقعے سے ثابت ہو گیا ہے کہ ان ملکوں کے درمیان تعاون کتنا ضروری ہے ۔ لیکن گریگ جانسن کہتے ہیں کہ اگرچہ سعودی عرب القاعدہ کے خلاف بہت سرگرم ہے لیکن اس کی کچھ مجبوریاں بھی ہیں۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ یمن اور سعودی عرب کے حکومتوں کے درمیان تعلقات پیچیدہ ہیں۔
گذشتہ سال یمن کی سرحد پر Houthi باغیوں نے سعودی فورسز کی جو ٹھکائی کی، اس سے یہ تعلقات اور زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ یمن پوسٹ اخبار کے ایڈیٹر حکیم المسماری کہتے ہیں کہ ہوائی جہاز کے سامان میں بم کے واقعے میں سعودی عرب نے یمن کے ساتھ اہانت آمیز رویہ اختیار کیا۔ ’’سعودی عرب نے براہ راست یمن کو اور اس کے ساتھ ہی امریکا کو کیوں مطلع نہیں کیا؟ یمن کو اس بارے میں سب سے آخر میں اطلاع ملی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یمن کے بارے میں سعودی عرب کے احساسات منفی ہیں اور سعودی عرب کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں، بلکہ یمن کی ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا۔‘‘
پرنسٹن یونیورسٹی کے جانسن کا خیال ہے کہ امریکہ کو اور دوسرے ملکوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ یمن اور سعودی عرب میں طاقت کے نظام شفاف اور کسی ایک مرکزی طاقت کے تحت نہیں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نظام حکومت کا کوئی واضح تصور سامنے نہیں آتا۔ یہ بڑی پیچیدہ صورت حال ہے، یمن میں بھی اور سعودی عرب میں بھی۔ یمن میں بہت سے قبائلی شیخ سعودی عرب کے بعض افراد سے تنخواہیں وصو ل کرتے ہیں ۔ سعودی عرب میں بھی بہت سے شہزادے ہیں جن میں مسلسل اختیارات کے لیے رسہ کشی جاری رہتی ہے ۔
ا ن رکاوٹوں کے باوجود، توقع یہی ہے کہ یمن سے نکلنے والے روز افزوں خطرات کے خلاف، امریکا، سعودی عرب سے اپنے تعلقات مضبوط بناتا رہے گا۔