اب جب کہ 2017 کا سال ختم ہونے کو ہے داعش کا عراق اور شام میں خلافت کا خواب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ عراقی حکومت کی جانب سے خشکی پر مستقل مہم اور شام میں اتحاد کی مدد کی حامل فورسز اور ان کے ساتھ ساتھ مغربی فضائی طاقت، ان سب نے آخر کار اس دہشت گرد گروپ کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔ تاہم عراق، شام اور ایرانی عہدے دار وں کی جانب سے فتح کے اعلان کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی خبردار کر رہے ہیں کہ لڑائی کے ختم ہونے میں ابھی بہت وقت باقی ہے ۔
دہشت گرد گروپ داعش نے یکم جنوری 2017 کو استنبول کے رینا نائٹ کلب میں ایک مسلح شخص کو بھیج کر 39 لوگوں کی ہلاکت سے سال کے ایک خونریز آغاز کو یقینی بنایا ۔
ایک عینی شاہد یوسف کوڈٹ کا کہنا ہے کہ افراتفری کے شکار لوگ، خون، گولیوں کی آوازیں، دھماکے، یہ سب چیزیں میرے ذہن پر ہر وقت سوار رہتی ہیں۔
لیکن مہلک دہشت گرد حملے کا حملہ عراق میں ایک مختلف حقیقت کی شکل میں ظاہر ہوا جہاں عراق کے شہر موصل می،ں جو اس گروپ کی اعلان کردہ خلافت کا دار الحکومت تھا، داعش نے اس وقت فرار کی راہ اختیار کی جب سیکیورٹی فورسز شہر میں داخل ہوئیں۔
لیفٹیننٹ کرنل ہشام عبد الخادم کہتے ہیں کہ دشمن ہمارے سامنے گر گیا اور جب ہم نے انہیں بھاری سبق سکھائے تو وہ اپنے ہتھیار اور آلات چھوڑتے ہو ئے بھاگ گئے۔
اسی دوران داعش کو مسلم دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی مخالفت کا سامنا ہوا، ٹیونس کے شہری جنگجوؤں کی واپسی پر احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ۔ امریکہ میں ایک نئے صدر نے انتباہ کیا کہ داعش اور اس جیسے گروپس کو تباہی کا سامنا ہو گا۔
ہم جو اصل صلاحیتیں رکھتے ہیں انہیں ہم نے استعمال نہیں کیا ہے ۔ ہم نے تحمل سے کام لیا ہے، ہمیں داعش سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں ہے۔
اپنی کوششوں کو بڑھاتے ہوئے امریکہ نے داعش مخالف فورسز کو مضبوط کرنے کی کوشش کی اور جب انہوں نے شام میں دہشت گر د گروپ کے دار الحکومت رقا کی جانب پیش قدمی شروع کی تو پہلی بار شام کی ڈیمو کریٹک فورسز کو بکتر بند گاڑیاں فراہم کیں۔
بغداد میں امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے کہا تھا کہ ہم عراقی فوج کے ساتھ اور عراقی لوگوں کے ساتھ مسلسل کھڑے ہیں جو اس فوج سے لڑ رہے ہیں۔
تاہم جب داعش پر عراق اور شام میں دباؤ بڑھا تو اس کا اثر اور مقامات پر محسوس ہوا جن میں پیرس اور مصر میں کیے گئے دہشت گرد حملے شامل تھے ۔ داعش نے پاکستان اور أفغانستان میں بھی اپنی طاقت کا مظاہر ہ کیا اور مارچ میں کابل کے ایک اسپتال میں حملہ کر کے 30 سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر دیا۔
امریکہ نے اس کے رد عمل میں أفغانستان کے صوبے ننگر ہار میں داعش کے ایک غار اور سرنگوں کے کمپلیکس پر اپنا سب سے بڑا غیر جوہری بم گرایا۔
افغانستان میں نیٹو کے کمانڈر جنرل جون نکلسن کہتے ہیں کہ میں یہ واضح کر دوں کہ ہم 2017 میں داعش کو تباہ کرنے کے لیے اپنے أفغان ساتھیوں کے ساتھ مل کر لڑنے کے اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
جولائی کے مہینے تک داعش کی خود اعلان کردہ خلافت کا شیرازہ بکھر گیا اور مہینوں کی لڑائی کے بعد اس کا عراقی دارالحکومت موصل آزاد کرا لیا گیا۔
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے اس موقع پر کہا کہ میں یہاں سے پوری دنیا کے لیے دہشت گرد گروپ داعش کے خاتمے، ناکامی اور شکست کا اعلان کرتا ہوں ۔
تین ماہ بعد رقا میں اس وقت خوشیوں کا سماں تھا جب داعش کے جنگجو خود اعلان کردہ خلافت کے شامی دار الحکومت سے فرار ہو گئے۔ اکتوبر ہی میں فلپائن میں داعش کو ایک نقصان ہوا اور جنوبی شہر مراوی پر قبضے کے لیے پانچ ماہ کی لڑائی شکست پر ختم ہوئی۔
تاہم علاقوں کے نقصان کے باوجود اسٹاک ہوم، پیرس، بارسیلونا اورنیو یارک میں کیے گئے حملوں میں داعش کے جنگجوؤں کی عالمی رسائی محسوس کی گئی۔
انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار کی جینیفر کیفرریلاکہتی ہیں کہ داعش اپنی عالمی جنگ مغرب پر حملوں کی اس کی مہم ، جاری رکھنے کی اپنی مسلسل اہلیت کا واضح طور پر مظاہرہ کر رہا ہے ۔ ہم شمالی افریقہ، أفغانستان اور جنوب مشرقی ایشیا جیسے دوسرے مقامات پر اس کی سرگرمیوں میں ا اضافہ دیکھ رہے ہیں ۔
دہشت گرد گروپ بظاہر ستمبر میں ایک آڈیو ریکارڈنگ میں موجود اپنے لیڈر أبو بکر البغدادی کےمشورے پر توجہ دے رہے ہیں ، جس میں اس نے کہا تھا فتح کا راستہ ، تحمل اور برداشت میں ہے ۔