رسائی کے لنکس

روس اور چین کی صدر ٹرمپ سے تعلقات پر طویل مشاورت


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔
  • چین کے صدر شی اور ان کے روسی ہم منصب نے امریکہ سے تعلقات کے بارے میں ڈیڑھ گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہنے والی ویڈیو کال میں طویل مشاورت کی ہے۔
  • روس اور چین نے امریکہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اسٹریٹجک تعلقات مزید گہرے کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
  • مغربی ممالک میں چین اور روس کے تعلقات میں بڑھتی قربتوں پر تشویش پائی جاتی ہے۔
  • صدر ٹرمپ خبردار کرچکے ہیں کہ اگر پوٹن نے یوکرین میں جنگ بند کرنے کے لیے بات چیت پر آمادگی ظاہر نہیں کی تو ان کے خلاف پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔
  • ہارورڈ یونی ورسٹی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار گراہم ایلیسن کے مطابق شی اور پوٹن کے تعلقات دنیا کا اہم ترین غیر اعلانیہ اتحاد ہے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ نے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت سے تعلقات پر طویل مشاورت کی ہے۔

صدر شی اور پوٹن نے ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد پیر کو ایک گھنٹے 35 منٹ تک ویڈیو کال پر بات چیت کی ہے جس میں یوکرین جنگ ختم کرنےسے متعلق کوئی ممکنہ حل زیرِ بحث آیا اور روس نے تائیوان پر بیجنگ کے مؤقف کی مکمل تائید کا اظہار کیا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق دونوں رہنماؤں نے امریکہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اسٹریٹجک تعلقات مزید گہرے کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

چین اور روس نے فروری 2022 میں پوٹن کے دورۂ بیجنگ کے موقعے پر اپنی پارٹنر شپ کو "حدود سے بالاتر"قرار دیا تھا۔ پوٹن نے یوکرین میں اپنی فوج داخل کرنے سے چند ہفتے قبل ہی چین کا دورہ کیا تھا۔ حالیہ مہینوں میں پوٹن اپنے بیانات میں مسلسل چین کو اپنا 'اتحادی' قرار دے چکے ہیں۔

پوٹن اور شی کے درمیان ہونے والی گفتگو میں دونوں نے ایک دوسرے کو 'ڈیئر فرینڈ' کہہ کر مخاطب کیا اور شی نے اپنے روسی ہم منصب کو گزشتہ جمعے کو ٹرمپ سے ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا جس میں ٹک ٹاک اور تائیوان سے متعلق بات چیت ہوئی تھی۔

روس کے حکومتی مرکز کریملن میں خارجہ امور کے مشیر یوری اشاکوف نے کہا ہے کہ اگر ٹرمپ کی ٹیم دل چسپی ظاہر کرتی ہے تو شی اور پوٹن نے امریکہ کے ساتھ مشترکہ مفادات اور باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

انہوں نے ماسکو میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہم امریکہ کی نئی حکومت سے یوکرین تنازع پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

اشاکوف نے کہا کہ پوٹن یوکرین میں مستقل بنیادوں پر امن کے خواہاں ہیں اورمحض وقتی جنگ بندی نہیں چاہتے۔ لیکن کوئی بھی معاہدہ روس کے مفادات کو پیشِ نطر رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے باضابطہ کال کی تجویز موصول نہیں ہوئی ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ واضح کرچکے ہیں کہ وہ چین سے متعلق سخت پالیسیاں اختیار کریں گے اور یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے پوٹن سے بات کریں گے۔

حلف برداری کے بعد رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ پوٹن کو جنگ ختم کرنے کے لیے کسی معاہدے پر پہنچنا چاہیے کیوں کہ یہ جنگ روس کو تباہ کر رہی ہے۔

چین کے صدر شی بھی یوکرین میں جنگ ختم کرنے پر زور دے چکے ہیں اور امریکہ کی جانب سے کیف کے لیے عسکری امداد کو جنگ طویل ہونے کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔

ہارورڈ یونی ورسٹی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار گراہم ایلیسن کے مطابق شی اور پوٹن کے تعلقات دنیا کا اہم ترین غیر اعلانیہ اتحاد ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ "ٹرمپ نے یوکرین میں جنگ ختم کرانے کا وعدہ کیا ہے، چینی صدر شی اس میں فیصلہ کُن کردار ادا کریں گے اور میں شرط لگا سکتا ہوں کہ ایسا ہی ہوگا۔"

چین اور روس کے درمیان اس طویل مشاورت کی خبر ایسے وقت آئی ہیں جب امریکہ میں کواڈ ممالک کے وزرائے خارجہ موجود ہیں۔

امریکہ کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے اپنی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد امریکہ میں کواڈ ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کی ہے۔

یہ گروپ انڈوپیسفک میں چین کے بڑھتے اثر کے مقابلے کے لیے بنا تھا جس میں امریکہ کے علاوہ بھارت، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں۔

ادھر ایک بیان میں صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ اگر پوٹن روس میں جنگ بند کرنے کے لیے بات چیت پر آمادگی ظاہر نہیں کرتے تو روس پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔

مشترکہ ورلڈ ویو

صدر ٹرمپ شی جن پنگ کو "تاش کا اچھا کھلاڑی"قرار دے چکے ہیں اور پوٹن کے ساتھ اپنے "بہترین" تعلقات کا حوالہ بھی دیتے آئے ہیں۔ لیکن اپنے پہلے دورِ اقتداد میں ٹرمپ نے روس کے صدر کو یوکرین کی جانب پیش قدمی سے باز رہنے کی وارننگ بھی دی تھی۔

پوٹن اور شی دونوں کا دنیا سے متعلق اندازِ نظر (ورلڈ ویو) یہ ہے کہ مغرب اب زوال پذیر ہے اور چین کئی شعبوں میں امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کرسکتا ہے۔

اشاکوف کا کہنا ہے پوٹن اور شی کی ویڈیو کال ٹرمپ کی حلف برداری سے بہت پہلے طے ہوئی تھی۔

امریکہ چین کو اپنا سب سے بڑا مقابل اور روس کو سب سے بڑا قومی خطرہ قرار دیتا ہے۔

پوٹن نے کہا ہے کہ چین روس کی توانائی کا سب سے بڑا خریدار ہے اور روسی تیل کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ ہے۔ ان کے بقول دونوں ممالک جوہری توانائی کے شعبے میں بھی تعاون بڑھانا چاہتے ہیں۔

تائیوان پر اشاکوف نے کہا کہ روس 'ون چائنا پرنسپل' پر غیر مشروط حمایت پر قائم ہے۔

چین جمہوری حکومت کے ماتحت تائیوان کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے اور سالِ نو کی تقریر میں شی نے کہا تھا کہ تائیوان کو چین سے ملانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

تائیوان کی حکومت بیجنگ کے دعوے کو مسترد کرتی ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ تائیوان کے لوگ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد ہیں اور بیجنگ کو اس کے عوام کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔

اس خبر کی تفصیلات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG