|
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین روس کے ساتھ امن مذاکرات میں شامل ہو گا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ روس کے ساتھ جنگ کے خاتمے سے متعلق کسی بھی امن مذاکرات کے دوران یوکرین کے لیے بھی جگہ ہو گی۔
ٹرمپ نے کہا کہ "وہ اس کا حصہ ہیں۔ ہمارے ساتھ یوکرین ہوگا، اور ہمارے ساتھ روس ہے، اور ہمارے ساتھ دوسرے بہت سے لوگ شامل ہوں گے۔"
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ پوٹن پر بھروسہ کرتے ہیں، انہوں نے کہا: "مجھے یقین ہے کہ وہ کچھ عمل میں آتا دیکھنا چاہیں گے۔ مجھے اس معاملے میں ان پر بھروسہ ہے۔" امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ روس کو سات ممالک کے گروپ میں دوبارہ شامل کیا جانا چاہیے۔
بدھ کے روز پوٹن سے بات چیت کےٹرمپ کے یک طرفہ اقدام اور یوکرین کے بنیادی مطالبات پر بظاہر صرف نظر نے، کیف اور نیٹو میں یورپی اتحادیوں دونوں کو چوکنا کردیا جنہوں نے کہا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ وائٹ ہاؤس ان کے بغیر کوئی معاہدہ کر سکتا ہے۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے کہا کہ ہم ایک خودمختار ملک کے طور پر اپنی شرکت کے بغیر کسی بھی معاہدے کو قبول نہیں کر یں گے۔ انہوں نے کہا کہ پوٹن کا مقصد امریکہ کے ساتھ اپنے دو طرفہ مذاکرات کرنا ہے اور یہ ضروری ہے کہ اس کی اجازت نہ دی جائے۔
ٹرمپ پوٹن ملاقات
اسی اثنا میں کریملن نے بتایا ہے کہ پوٹن اور ٹرمپ کی ممکنہ طور پر سعودی عرب میں ملاقات کے منصوبے زیر غور ہیں۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے یہ بھی کہا کہ یوکرین "یقیناً" امن مذاکرات میں کسی نہ کسی طرح شرکت کرے گا، لیکن امریکہ اور روس کے درمیان دو طرفہ مذاکرات کا راستہ بھی ہوگا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، متحدہ عرب امارات نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی میزبانی کرنا چاہتا ہے۔
یورپی حکام نے ٹرمپ کے امن کے بارے میں کھلے عام ایک غیر معمولی طور پر مستحکم موقف اختیار کیا کہ کسی بھی معاہدے پر اس صورت میں عمل درآمد ناممکن ہوگا اگر وہ اور یوکرینی اس بات چیت میں شامل نہ ہوں۔
انہوں نے نے پیشگی طور پر دی جانے والی مراعات کی بھی مذمت کی۔ یورپی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس نے کہا"ہم ، مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی انہیں (روس) کو وہ سب کچھ کیوں دے رہے ہیں جو وہ چاہتے ہیں؟"
" ایک یورپی سفارتی ذریعہ نے کہا کہ وزراء نے جمعہ کو شروع ہونے والی سالانہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں امریکی حکام کے ساتھ بے لاگ اور پر زور بات چیت پر اتفاق کیا ہے۔ '
بدھ کے روز، ٹرمپ نے فروری 2022 میں روس کے مکمل حملے کے بعد پوتن کے ساتھ پہلی عوامی طور پر تسلیم شدہ وائٹ ہاؤس کال کی، اور پھر اس کے بعد زیلنسکی کو کال کی۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں فریق امن چاہتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے پہلی بار کھلے عام یہ بھی کہا کہ یوکرین کے لیے اپنی 2014 کی سرحدوں پر واپس آنے یا کسی بھی معاہدے کے تحت نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کی توقع رکھنا غیر حقیقت پسندانہ ہے، اور یہ کہ کوئی بھی امریکی فوجی یوکرین میں کسی ایسی سیکیورٹی فورس میں شامل نہیں ہوگا جو جنگ بندی کی ضمانت کے لیے قائم کی گئی ہو۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ، جنہوں نے نیٹو ہیڈکوارٹر میں اپنی تقریر میں اس نئی پالیسی کے بارے میں بتایا تھا، جمعرات کو کہا کہ دنیا خوش قسمت ہے کہ ٹرمپ "کرہ ارض کے بہترین مذاکرات کار ہیں، جنہوں نے مذاکرات کے ذریعے امن کی تلاش کے لیے دونوں فریقوں کو یکجا کیا ہے۔"
کریملن کے ترجمان پیسکوف نے کہا کہ ماسکو ٹرمپ کی جانب سے کسی حل کی تلاش کی خواہش سے "متاثر" ہوا ہے۔
یوکرین جنگ
روس نے یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کی پراکسیز نے 2014 میں مشرقی علاقے پر قبضہ کیا تھا۔ 2022 میں روس کے مکمل حملے سے پہلے جب اس نے مشرق اور جنوب میں مزید زمین پر قبضہ کیا تو یوکرین نے روسی حملہ آوروں کو کیف کے مضافات سے پیچھے دھکیل دیا اور 2022 میں ایک بڑے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیاتھا۔
مسلسل لڑائی میں دونوں طرف سے لاکھوں فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں - مرنے والوں کی کوئی قابل اعتبار تعداد نہیں ہے - یوکرین کے شہر تباہ ہو گئے ہیں۔ تاہم دونوں طرف سے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
کیف کا کہنا ہے کہ روسی فوجیوں کا انخلا ضروری ہے اور اسے مستقبل میں ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے نیٹو کی رکنیت کے ذریعے سیکیورٹی کی ضمانتیں حاصل کرنا ہوں گی۔
یوکرینی حکام ماضی میں تسلیم کر چکے ہیں کہ نیٹو کی مکمل رکنیت کسی مختصر مدت میں پہنچ سے باہر ہو سکتی ہے، اور یہ ایک مفروضے کے طور پر کسی امن معاہدے میں روس کے پاس موجود کچھ مقبوضہ زمین چھوڑ ی جا سکتی ہے۔ لیکن یوکرین کے وزیر خارجہ اندری سیبیہا نے کہا کہ کیف نیٹو میں شامل ہونے کے لیے پرعزم ہے۔
بقول ان کے یہ رکنیت ہی امن کی ضمانت دینے والا سب سے سادہ طریقہ ہے۔
یہ رپورٹ رائٹرز کی معلومات پر مبنی ہے۔
فورم