دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی اسٹاک مارکیٹ کے بحران نے دیگر ملکوں کی معیشت کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ پچھلے ہفتے سے جاری شنگھائی انڈیکس میں مندی کے رجحان کے نتیجے میں دنیا بھر میں سرمایہ کار اربوں ڈالر کی دولت سے محروم ہو چکے ہیں۔
بلوم برگ بلینئیرز انڈیکس کے مطابق شنگھائی اسٹاک مارکیٹ میں کمی اور چینی معیشت کی سست روی کے منفی اثرات پیر کے روز بھی عالمی مارکیٹوں میں دیکھے گئے۔
دنیا بھر کے بلینیئرز افراد کے لیے پیر (سیاہ دن ) ثابت ہوا, جس میں 400 امیر ترین لوگوں نے ایک بار پھر سے مارکیٹوں میں اپنے اربوں ڈالر کھو دیے۔
انڈیکس کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیر کے روز دنیا کے 400 امیر ترین افراد کے مجموی اثاثوں میں سے 124 ارب ڈالر ڈوب گئے اور اب ان کی مجموعی دولت کا تخمینہ 3.86 کھرب ڈالر ہے۔
تفصیلات کے مطابق بلوم برگ نے دنیا کے ارب پتی لوگوں کے اثاثوں کا تجزیہ مارکیٹ کی حالیہ صورتحال اور موجودہ اقتصادی تبدیلیوں کی بنیاد پر کیا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق بدترین مندی کے نتیجے میں دنیا کے 24 بلینیئرز ایک ہی دن میں اپنی اربوں کی دولت سے محروم ہوگئے۔
ٹیکنالوجی مائیکرو سافٹ کمپنی کے بانی اور دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے ایشیا کے امیر ترین شخص وانگ جے لن کے بعد مارکیٹوں میں سب سے بڑا نقصان برداشت کیا ہے۔ بل گیٹس کی دولت میں پیر کو 3.2 ارب ڈالر کی کمی دیکھی گئی ہے، ان کے کل اثاثوں کی مالیت 82.4 ارب ڈالر ہے ۔
ایمیزون کے بانی اور سی ای او جیف بیزوز کی دولت میں سے 2.6ارب ڈالر ڈوب گئے۔
میکسیکو میں ٹیلی کام سیکٹر کے سرمایہ کار لارلوس سلم حالیہ مندی کے نتیجے میں پیر کو 1.6 ارب ڈالر سے محروم ہوگئے اور ان کے اثاثوں کی مالیت 2012 کے بعد کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے ان کی کل دولت 58.7 ارب ڈالر ہے۔
فیس بک کے شریک بانی مارک زکرک برگ کے مندی کے نتیجے میں 1.7 ارب ڈالر مارکیٹوں میں ڈوب گئے ہیں۔
تازہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کے 200 امیر ترین لوگوں نے اسٹاک مارکیٹوں میں کاروبار کی کمی کی وجہ سے مجموعی طور پر 94.2 ارب ڈالر کا گھاٹا برداشت کیا ہے جو مجموعی طور پر 2.9 کھرب ڈالر کی دولت پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ ان میں الولید السعود قابل ذکر ہیں ،جنھوں نے 169 لاکھ ڈالر کا نقصان برداشت کیا۔
ایشیا کے امیر ترین سرمایہ کار وانگ جے لن نے چین کی اسٹاک مارکیٹ میں اربوں کا نقصان اٹھایا۔ حالیہ مندی کے بعد سے اب تک مارکیٹوں میں ان کے 3.6 ارب ڈالر ڈوب گئے ہیں۔
معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ چینی معیشت کی غیر یقینی صورتحال اور بیرونی سرمایہ کاروں کی جانب سے رقمیں نکالے جانے اور حصص کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کی وجہ سے عالمی مارکیٹوں میں حصص کی رسد میں اضافہ اور حصص کی قیمت گر گئی ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار ہوگئی ہیں۔
چین پچھلی دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اقتصادی ترقی اور عالمی سطح پر کم افراط زر کے لیے اہم کردار ادا کرتا رہا ہے، تاہم گذشتہ بربس چینی معیشت کی شرح نمو 7.4 فیصد کم رہی جو 1990 کے بعد کی کم ترین شرح تھی اور اس برس بہتری کی شرح مزید کم ہوئی۔
چین کی مرکزی اسٹاک مارکیٹ 2007 کے بعد سب سے بڑی مندی کا شکار ہوئی ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی حکومت کی جانب سے اس ماہ کے اوائل میں چینی کرنسی (یوآن) کے سستے کئے جانے کے فیصلے نے عالمی سطح پرخدشات کو جنم دیا ہے کہ معیشت میں اصل بہتری شاید اس سے کم ہے جبکہ چینی معیشت میں سستی کی وجہ سے دیگر معیشتوں کے بھی متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوا ہے ۔