عالمی سیاسی منظر نامے پر 2014ء میں کئی اہم واقعات اور تبدیلیاں رونما ہوئیں جس کے اثرات آنے والے سال میں بھی جاری رہنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
ان واقعات میں سے چند اہم، یوکرین کے بحران کے بعد روس اور مغربی ممالک کے درمیان کشیدگی، شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کا شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر قبضہ، امریکہ میں وسط مدتی انتخابات میں رپبلکن پارٹی کی واضح کامیابی اور ملک کی سیاست پر اس کے اثرات، افغانستان میں انتقال اقتدار اور مغربی افریقہ کے ممالک میں مہلک ایبولا وائرس کی وبا شامل ہے۔
یوکرین کا بحران
یوکرین کے علاقے کرائمیا میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کے بعد اس علاقے میں ریفرنڈم کروایا گیا جس میں اکثریت نے روس سے الحاق کے حق میں ووٹ ڈالے۔
ماسکو نے کرائمیا کے روس سے الحاق کی منظور دے دی جس پر مغربی ممالک کی طرف سے اس پر شدید تنقید کی گئی۔
امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے روس کے خلاف سخت انتباہ جاری کرنے کے علاوہ ماسکو پر کئی تعزیرات بھی عائد کی گئیں۔
پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد ماسکو کو مالیاتی مشکلات کا سامنا ہے جس کا اعتراف روس کے صدر ولادیمر پوٹن بھی کر چکے ہیں اور اُنھوں نے اپنے ہم وطنوں سے بھی کہا کہ وہ آئندہ آنے والے دنوں اور مہینوں میں ’بعض مشکلات‘ کے لیے تیار رہیں۔
امریکہ، یوکرین کی حکومت اور یورپی یونین کا ماسکو پر الزام ہے کہ وہ یوکرین میں تشدد کو ہوا دینے اور اس ملک میں روس نواز علیحدگی پسندوں کو مسلح کرنے میں ملوث ہے تاہم روس ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
شدت پسند تنظیم ’دولت اسلامیہ‘ کی کارروائیاں
سال 2014ء کے وسط میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی کارروائیوں میں تیزی آئی اور اس کے جنگجوؤں نے شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
دولت اسلامیہ کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں ’خلافت‘ کے قیام کا اعلان کیا جب کہ عراق کے دارالحکومت بغداد کی جانب تیزی سے پیش قدمی شروع کی اور تیل کی کئی اہم تنصیبات پر قبضہ بھی کر لیا۔
شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی کے بعد عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
امریکہ کی زیر قیادت اتحادی ممالک نے ستمبر میں دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائیاں شروع کیں۔ امریکی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ دولت اسلامیہ کے خلاف ان کارروائیوں کے مثبت نتائج نکلے ہیں۔
عراق اور شام میں ’دولت اسلامیہ‘ کے اہداف کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اس شدت پسند تنظیم کے جنگجوؤں کی نا صرف پیش قدمی رکی بلکہ اُنھیں کئی علاقوں سے پیچھے بھی دھکیلا گیا۔
دولت اسلامیہ کے خلاف بعض کامیابیوں کے باوجود یہ تنظیم رواں سال کے آخر تک عالمی امن کے لیے بدستور ایک خطرہ ہے۔
امریکہ کے وسط مدتی انتخابات
نومبر 2014ء میں امریکہ میں وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کی واضح کامیابی کے بعد اس جماعت کو آئندہ دو سالوں کے دوران سینیٹ اور ایوان نمائندگان دونوں میں اکثریت حاصل ہو گی۔ اس تناظر میں سال 2014ء صدر براک اوباما کے لیے ایک مشکل سیاسی سال ثابت ہوا۔
افغانستان میں انتقال اقتدار کا عمل مکمل اور غیر ملکی افواج کا انخلا
اشرف غنی نے 29 ستمبر کو بطور افغان صدر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا جس کے بعد جنگ سے تباہ حال اس ملک میں جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہوا۔
جون 2014ء میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کے ابتدائی نتائج سے پیدا ہونے والے تنازع کے حل کے لیے شراکت اقتدار کا ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت اشرف غنی صدر اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹو بنے۔
اشرف غنی نے 2001ء سے افغانستان کے منصب صدارت پر فائز رہنے والے حامد کرزئی کی جگہ یہ ذمہ داریاں ایسے وقت سنبھالیں، جب 13 سالہ جنگ کے بعد غیر ملکی افواج کی اکثریت کا 2014ء کے اواخر میں انخلا مکمل ہو جائے گا۔
اشرف غنی کے صدر بننے کے ایک روز بعد ہی 30 ستمبر 2014ء کو افغانستان اور امریکہ کے عہدیداروں نے دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں امریکی فوجی رہ سکیں گے۔
دو طرفہ سکیورٹی معاہدے کے بعد توقع ہے کہ 2014ء کے اختتام پر افغانستان سے بین الاقوامی لڑاکا افواج کے انخلا کے بعد نیٹو کے 12 ہزار فوجی وہاں رہیں گے جن میں سے 9,800 امریکی فوجی ہوں گے۔
ایبولا وائرس کی وبا
مغربی افریقہ کے ممالک بالخصوص گنی، لائبیریا اور سیرالیون ایبولا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، تاہم ایبولا وائرس کی وبا پوری دنیا کے لیے خطرہ بن کر سامنے آئی۔
اقوام متحدہ، امریکہ اور مغربی دنیا کے ممالک کی طرف سے اس وائرس کے خلاف فوری اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا جانے لگا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وبا سے متاثر ہو کر مرنے والوں کی تعداد 7500 سے تجاوز کر چکی ہے۔
دنیا بھر میں اس وائرس سے نمٹنے کے لیے تقریباً تمام ہی ممالک نے اپنے اپنے طور پر انتظامات کیے۔
اسرائیل اور حماس کی لڑائی
جولائی میں اسرائیل نے یہ کہہ کر غزہ کے علاقوں میں فضائی کارروائیاں شروع کیں کہ ان علاقوں سے حماس کے عسکریت پسند اسرائیل پر راکٹ باری کر رہے ہیں۔ 50 روز تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں 2100 سے زائد فلسطینی مارے گئے جب کہ اسرائیل کے فوجیوں سمیت 69 افراد ہلاک ہوئے۔
ایک معاہدے کے تحت فریقین میں جنگ بندی ممکن ہوئی لیکن اب بھی صورتحال میں کشیدگی پائی جاتی ہے جسے کم کرنے کے لیے امریکہ بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔