یوکرینی صدر کا روسی فوج پر کھیرسن میں مظالم کرنے کا الزام
یوکرین کے صدر ولادو میر زیلنسکی نے روسی افواج پر جنوبی علاقے کھیرسن میں مظالم کے ارتکاب کا الزام عائد کیا ہے جہاں سے اب روسی افواج جزوی طور پر واپس جا چکی ہیں ۔
اتوار کو اپنے رات کے ویڈیو خطاب میں زیلنسکی نے تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا کہ تفتیش کار روس کی جنگ کے 400 سے زیادہ جرائم کی دستاویزات پہلے ہی پیش کر چکے ہیں اور انہیں سویلین اور فوجی لاشیں ملی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ کھیرسن کے علاقے میں بھی روسی فوج نے دوسرے علاقوں کی طرح مظالم کیے ہیں ۔
کھیرسن شہر پر روس کے آٹھ ماہ کے قبضے کے خاتمے نے کئی دن کے جشن کے ساتھ ساتھ ایک انسانی ہنگامی صورت حال کو بھی جنم دیا ہے۔
وہا ں رہائشی بجلی اور پانی کے بغیر رہ رہے ہیں اورانہیں خوراک اور ادویات کی کمی کا بھی سامنا ہے ۔
روس ابھی تک کھیرسن کے وسیع تر علاقے کے تقریباً 70 فیصد پر کنٹرول رکھتا ہے ۔
برطانیہ اور فرانس میں غیرقانونی تارکین وطن کی نقل و حرکت روکنے کا معاہدہ
برطانیہ اور فرانس کی فورسز کے درمیان انگلش چینل عبور کر کے انگلستان جانے والے غیرقانونی تارکین وطن کے سلسلے کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے ۔
نئے معاہدے کے تحت، برطانیہ سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے فرانس کو 75 ملین ڈالر ادا کرے گا جو تارکین وطن اور پناہ کے متلاشیوں کو فرانس سے چھوٹے جہازوں کے ذریعے خطرناک آبی گزرگاہ پر جانے سے روکے گا۔
اس معاہدے کے تحت گشت میں 40 فیصد اضافہ اور کراسنگ کو روکنے کے لیے ڈرون اور دیگر ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ کیا جائے گا۔
معاہدے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں ملک اسمگلروں کے بارے میں معلومات اور روکے گئے تارکین وطن سے حاصل کردہ دیگر خدشات کا تبادلہ کریں گے۔
پیرس میں فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمینین اور برطانوی وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔
افغانستان: ملا ہبت اللہ کا ججوں کو حدود اور قصاص کے نفاذ کا حکم
طالبان کےلیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ نے افغان ججوں سے ایک ملاقات میں کہا ہے کہ وہ ان تمام مقدمات پر کارروائی کریں جن پر حدود اور قصاص کی تمام شرائط پوری ہوتی ہیں ۔
طالبان کے ترجمان کے مطابق انہوں نے کہا کہ آپ حدود اور قصاص کو نافذ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
اخوندزادہ نے مزید کہا، ’کیونکہ یہ شریعت کا حکم ہے اور یہ میرا بھی حکم ہے، اور یہ ایک ذمے داری ہے‘۔
انڈونیشیا میں گروپ جی۔20 کانفرنس، یوکرین جنگ پر ارکان میں اختلاف
دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں کے گروپ 20 کے رہنماؤں نے منگل کو انڈونیشیا کے جزیرے بالی پر بات چیت کا آغاز کیا۔گروپ کے ارکان کے درمیان یوکرین میں جنگ کی وجہ سے اختلافات موجود ہیں۔
امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے منگل کی صبح صحافیوں کو ایک بریفنگ میں کہا کہ رہنما ایک بیان جاری کرنے والے ہیں جس میں بیشتر اراکین یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کی شدید مذمت کریں گے۔
اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ میرے خیال میں آپ جی۔20 کے زیادہ تر اراکین کو یہ واضح کرتے ہوئے دیکھیں گے کہ وہ یوکرین میں روس کی جنگ کی مذمت کریں گے اور وہ یوکرین میں روس کی جنگ کو دنیا میں بے پناہ معاشی اور انسانی مصائب کی جڑ سمجھتے ہیں۔
اہل کار نے بتایا کہ اس ہفتے کے آخر میں سربراہی اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والا بیان، یہ ظاہر کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ گروپ روس کو الگ تھلگ کر رہا ہے، جو جی۔20 کا رکن ہے۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے ملک اس بیان پر دستخط کریں گے۔
جی 20 کے میزبان انڈو نیشیا کے صدر جوکو ودودو نے بند دروازے کے پیچھےرہنماؤں کے درمیان ہونے والے مذاکرت سے قبل افتتاحی تبصروں میں رکن ملکوں پر زور دیا کہ وہ یوکرین پر روس کے حملے پر اپنے اختلافات کی بنا پر اتحاد اور اقتصادی بحالی کے اپنے ایجنڈے کو متاثر نہ ہونے دیں ۔