رسائی کے لنکس

ایڈز کے خاتمے کے لیے منظم اقدامات پر زور


رپورٹ میں ایچ آئی وی/ایڈز کی وبا کے خاتمے کے لیے اپنے منصوبے کا خاکہ پیش کیا ہے۔
رپورٹ میں ایچ آئی وی/ایڈز کی وبا کے خاتمے کے لیے اپنے منصوبے کا خاکہ پیش کیا ہے۔

گزشتہ کئی برسوں میں 30 سال پرانی اس وبا کے بارے میں انتہائی ولولہ انگیز سائنسی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔

ایڈز کی بیماری کے خلاف جد و جہد کرنے والی دو بڑی تنظیموں نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں انھوں نے ایچ آئی وی/ایڈز کی وبا کے خاتمے کے لیے اپنے منصوبے کا خاکہ پیش کیا ہے۔ یہ رپورٹ واشنگٹن میں منعقد ہونے والی انیسویں بین الاقوامی ایڈز کانفرنس ’’ایڈز 2012ء‘‘ سے کچھ پہلے جاری کی گئی ہے۔

اے وی اے سی (AVAC)، ایم فار (amFAR) اور فاؤنڈیشن فار ایڈز ریسرچ نے ’An Action Agenda to End AIDS‘ کے عنوان سے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں ایڈز کی وبا کے خلاف مختصر اور طویل عرصے کے اہداف بیان کیے گئے ہیں۔

مچِل وارن AVAC کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ہیں۔ یہ تنظیم پہلے AIDS Vaccine Advocacy Coalition کہلاتی تھی ۔ وارن کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں میں 30 سال پرانی اس وبا کے بارے میں انتہائی ولولہ انگیز سائنسی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔

’’ان تمام معلومات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وبا کو مکمل طور سے ختم کرنا، محض کسی دیوانے کا خواب نہیں ہے۔ کئی عشروں سے ہم جو کچھ سوچتے آئے ہیں، اسے اب حقیقت کا روپ دیا جا سکتا ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ ایسا کرنا ممکن ہے۔‘‘

اس سائنس میں اس بات کا ثبوت شامل ہے کہ antiretroviral ادویات سے نہ صرف جانیں بچائی جا سکتی ہیں اور زندگی کو طول دیا جا سکتا ہے، بلکہ ان کے ذریعے اس وبا کے انفیکشن کی روک تھام بھی کی جا سکتی ہے۔
کئی عشروں سے ہم جو کچھ سوچتے آئے ہیں، اسے اب حقیقت کا روپ دیا جا سکتا ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ ایسا کرنا ممکن ہے۔
مچِل وارن


خورد بینی جرثوموں پر ریسرچ میں جو زبردست ترقی ہوئی ہے اس کے ذریعے عورتیں خود کو ایچ آئی وی سے محفوظ کر سکتی ہیں۔ حالیہ تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ایچ آئی وی کے خلاف ویکسین کی تیاری ممکن ہے۔

’’اب اس معمے کے مختلف ٹکڑوں کے معنی سمجھ میں آنے لگے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ایڈز کے خلاف جد و جہد کرنے والوں، پالیسی سازوں اور ریسرچ کرنے والوں میں اتنی سمجھ بوجھ ہے کہ ان ٹکڑوں کو صحیح طریقے سے یکجا کیا جا سکے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ہم اگلے چند برسوں کے لیے ایسے اہم اقدامات کا خاکہ تیار کر دیں جن کے ذریعے سائنس کو عملی زندگی میں استعمال کرنے کا عمل شروع ہو سکے۔‘‘

وارن کا کہنا ہے کہ ان گروپوں نے عملی اقدامات کا جو خاکہ تیار کیا ہے اس میں پہلا ضروری قدم یہ ہے کہ کچھ مشکل فیصلے کیے جائیں

’’اگر ہم اگلے دو، تین یا چار سال میں یہ مشکل فیصلے نہیں کریں گے، تو پھر اگلے تین یا چار یا پانچ برسوں میں یہ مشکل فیصلے کرنا کہیں زیادہ مشکل ہو جائے گا کیوں کہ ایچ آئی وی کے انفیکشن کے کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘

دوسرے اقدامات میں کافی مقدار میں اور طویل عرصے تک وسائل کی فراہمی شامل ہے تا کہ حالات کو درست کرنے کے اقدامات میں کمی نہ ہو، بلکہ ان میں اضافہ کیا جائے۔

’’گزشتہ عشرے میں ہم نے دیکھا کہ ایڈز کے علاج اور اس کے بچاؤ کے لیے اور عالمی صحت کے لیے، وسائل میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اور اب پہلی بار ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان وسائل کی سطح ایک جگہ آ کر رُک رگئی ہے۔ 2012ء میں ایڈز کے پروگراموں پر عمل در آمد اور ریسرچ اور مزید ترقی کے لیے جو وسائل دستیاب ہیں وہ اتنے ہی معلوم ہوتے ہیں جتنے 2008ء اور 2009ء میں تھے اور یہ رجحان بہت زیادہ پریشان کن ہے۔‘‘


وارن کہتے ہیں کہ اہم بات یہ ہے کہ ایڈز کے اور زیادہ مریضوں کا علاج شروع کیا جائے اور بچاؤ کے آزمودہ طریقوں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے۔ اگر زیر علاج لوگوں کی تعداد ان لوگوں سے زیادہ ہو جائے جن کو پہلی بار انفیکشن ہو رہا ہے، تو یہ بڑی کامیابی ہو گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمیں ایسے وقت میں جب بجٹ کم ہو رہے ہیں، مختصر مدت کے لیے اخراجات میں اضافہ کرنا پڑے گا۔

’’اگر ایڈز کوئی کاروبار ہوتا، تو اس میں پیسہ لگانے کے لیے اس سے بہتر اور کوئی وقت نہیں ہو سکتا۔ ہم نے زبردست سائنسی معلومات حاصل کر لی ہیں، اور ہم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کیا چیز کار گر ہوتی ہے۔ اور جو چیزیں کارگر ہو رہی ہیں، ان میں ہم اپنی سرمایہ کاری میں زبردست اضافہ نہیں کرتے، تو پھر اس جنگ میں ہم بہت پیچھے جا پڑیں گے۔‘‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وبا کو ختم کرنے کے لیے دوسرے ضروری اقدامات یہ ہیں کہ واضح اہداف اور ذمہ داریوں پر متفق ہوا جائے۔

’’ہمیں صحیح معنوں میں ہر مہینے اور ہر تین مہینے بعد اعدادو شمار کی جانچ کرنی چاہیئے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اگر جن لوگوں کا antiretroviral ادویہ سے علاج ہو رہا ہے، ان میں ہمیں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی ہے، اور زیادہ نوجوان ایسے پروگراموں میں رضاکارانہ طور پر شامل نہیں ہو رہے ہیں جن کے ذریعے ایڈز سے بچاؤ ہو سکے، تو پھر ہم بر وقت انداز میں اپنے پروگراموں کی سمت تبدیل نہیں کر سکتے اور اپنے وسائل کو طویل عرصے کے لیے صحیح طور پر استعمال نہیں کر سکتے۔‘‘

وارن کہتے ہیں کہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ پروگراموں کی جانچ ہر دو سال بعد اس وقت کی جاتی ہے جب گرانٹس ملنے کا وقت آتا ہے۔

اُن کے بقول جیسا کہ صدر اوباما اور وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے، ایسی نسل کا تصور آسان ہے جو ایڈز سے مکمل طور سے نجات حاصل کر چکی ہو۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس ہدف کے حاصل کرنے کے لیے کوئی تاریخ مقرر کرنا، کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔
XS
SM
MD
LG