بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں ملکی تاریخ کی بدترین بارشیں اور سیلاب، روس میں تاریخ کا گرم ترین موسم جبکہ چین میں کئی دہائیوں کے بعد غیر معمولی شدت کے سیلاب اورپہاڑی تودوں کے کھسکنے کے علاوہ بحرِ منجمد شمالی میں بڑے برفانی تودوں کے تیزی سے پگھلنے کا عمل، یہ سب عالمی درجہ حرات میں اضافے کی علامتیں ہو سکتی ہیں۔
رواں مہینے اور ستمبر میں امریکہ اور یورپ میں اقوام متحدہ، امریکی اور برطانوی حکومتوں کی سرپرستی میں بین الاقوامی ماہرین کے اجلاس ہونے جار ہے ہیں جن میں انتہائی ماحولیاتی تبدیلیوں کی بروقت پیش گوئی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ایک بہتر نظام وضع کرنے کی کوشش کی جا ئے گی۔
برطانوی ماہرین کے بقول مزید وقت ضائع کیے بغیر سائنسدانوں کو عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے نمٹنے کے لیے تیارکرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات کے اسبا ب اور اثرات کے درمیان تعلق کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کام کرنے والے سائنسدانوں کی تنظیم آئی پی سی سی (Intragovernmental Panel on Climate Change ) نے طویل عرصے پہلے یہ پیش گوئی کردی تھی کے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث آنے والے برسوں میں زیادہ روانی اور شدت سے گرمی کی لہریں اور بارشیں ہوں گی۔ لیکن اپنی 2007 ء کی جائزہ رپورٹ میں ماہرین کی اس عالمی تنظیم نے ان رجحانات کے ظہور پذیر ہونے کا انکشاف کرتے ہوئے مثال دی تھی کہ 1950ء کے بعد گرمی کی لہر میں شدت آئی ہے۔ تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ روس، پاکستان، چین اور بحر منجمد شمالی پیش آنے والے حالیہ واقعات درجہ حرات میں اضافے سے ہونے والی تبدیلیوں کی پیش گوئی کے عین مطابق ہیں۔
روس
ماہرین کا کہنا ہے کہ روس میں حالیہ گرمی کی لہر سے ملک کو تاریخ کے گرم ترین موسم گرما کا سامنا ہے اور ماسکو میں پہلی مرتبہ اوسط درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافے سے وسیع پیمانے پر خشک سالی کے شکار جنگلات میں لگنے والی آگ سے مغربی روس اس وقت زہریلی گیسوں کے دھویں میں گھرا ہوا ہے۔ دارالحکومت ماسکومیں اس فضائی آلودگی سے روزانہ سات سو افراد موت کا شکار ہو رہے ہیں ۔ خشک سالی سے گندم کی پیداوار میں ایک تہائی کمی ہو چکی ہے۔ آئی پی سی سی نے 2007 ء میں اپنی رپورٹ میں رواں صدی کے دوران روس میں تباہ کن خشک سالی میں دگنے اضافے اور خشک سالی کے دوران وسیع پیمانے پر جنگلات میں آگ لگنے کی پیش گوئی کی تھی۔ جائزہ رپورٹ میں روس میں بڑے پیمانے پر فصلوں کو نقصان پہنچنے کی پیش گوئی بھی کی گئی تھی۔
پاکستان
اس مرتبہ مون سون کا موسم شروع ہوتے ہی صرف پہلے 36گھنٹوں میں بارہ انچ یا تین سو ملی میٹر بارش کے باعث پاکستان کے شمالی مغربی حصوں میں دریاؤں میں غیر معمولی طغیانی آنے سے ملک بھر میں آنے والے سیلاب سے اب تک لگ بھگ دو کروڑ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ مقامی اور عالمی ماہرین کے مطابق پاکستانی علاقوں میں پچھلے80 سالوں میں آنے والا یہ بدترین سیلاب ہے۔ آئی پی سی سی نے 2007 ء کی اپنی رپورٹ میں پچھلے 40 سالوں میں شمالی پاکستان میں بارشوں کی شدت میں اضافہ کی نشاندہی کرتے ہوئے رواں صدی کے دوران جنوبی ایشیاء کے مون سون کے موسموں کے دوران غیر معمولی نوعیت کے سیلابوں کی پیش گوئی کی تھی۔
چین
کئی دہائیوں کے بعد چین کو بھی خاص طور پر ملک کے شمال مغربی حصوں میں اس وقت بدترین سیلابوں کا سامنا ہے۔ سیلابی ریلوں اور مٹی کے تودوں کے سرکنے سے ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک اور چھ سو سے زائد لاپتہ ہو چکے ہیں۔ آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق 1961 ء کے بعد چین کے شمال مغربی علاقوں میں بارشوں میں 33 فیصد اضافہ ہو ا ہے اور ملک میں زیادہ شدت سے سیلاب آنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
بحرِمنجمد شمالی
حال ہی میں ماہرین کی ایک ٹیم نے واپس آکر دنیا کو یہ چونکا دینے والی خبردی ہے کہ اگست کے اوائل میں بحرمنجمد شمالی میں پیٹرمین گلیشئرسے 106 مربع میل پر مشتمل حصہ ٹوٹ کر الگ ہو گیا ہے ۔ گرین لینڈ میں کسی ایک برفانی جزیرے کا اتنے بڑے ٹکڑے کے پگھلنے کا یہ پہلا واقعہ ہے جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے بحرِمنجمد شمالی پر ہونے والے اثرات کی اُس رفتار سے کہیں زیادہ ہے جس کی پیش گوئی سائنسدان اب تک کرتے آئے ہیں۔
برفانی تودے کے پگھلنے کے دور رس اثرات نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ برف پگھلنے سے سمند ر کی سطح بلند ہو رہی ہے اور برف کے مقابلے میں پانی میں گرمی کو جذب کر نے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے جس سے عالمی تپش میں اضافے کا عمل تیز ہوگا۔
سائنسدانوں کا الزام ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی بڑی وجہ صنعتوں ، گھریلو ذرائع، ٹرکوں اور گاڑیوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور فضائی آلودگی میں اضافہ کرنے والی دوسری گیسوں کا اخراج ہے اورماحول کو بچانے کے لیے وہ ان گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ ماحول کو آلودہ کرنے والی ان گیسوں کے اخراج میں چین پہلے اور امریکہ دوسر ے نمبر پر ہے۔