’کوم او ری آن‘ آئرلینڈ کے رہنے والے ہیں اور وائلن بجاتے ہیں۔ پرینی سندرلنگم تامل ہیں اور اُن کا تعلق سری لنکا سے ہے۔
اِن دونوں میاں بیوی نے مل کر ایک ایسی منفرد موسیقی ترتیب دی ہے جِس میں اِن دونوں کے مشترکہ تجربات کا عکس جھلکتا ہے جیسے ترکِ وطن کرنا اور اپنوں سے دوری ۔ سین فرانسسکو میں ہونے والے ایک کانسرٹ کےدوران وائس آف امریکہ کی لونی شیولسن نے اِن سےملاقات کی۔
وہ کہتی ہیں کہ، کوا اور ی آن اور پرینی سندرلنگم کو متعارف کرانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اُن کی ملاقات کے بارے میں بات کی جائےجو اِن دونوں کے آئرش اور سری لنکن والدین کے درمیان ہوئی۔
پرینی کے بقول، کوم شروع میں کچھ فکر مند تھے کہ پتا نہیں ہمارے والدین کا کیا ردِ عمل ہوگا ، کیونکہ ہم دونوں مختلف مذاہب کے ماننے والے تھے اور دنیا کے دو مختلف کونوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ لیکن وہ جب آپس میں ملے تو اُن کو پتا چلا کہ اُن میں کئی باتیں مشترک ہیں جیسے برطانوی راج کے قصے ،اِس کے خلاف مزاحمت کی داستانیں اور اُن سے جڑی شاعری، ادب اور موسیقی۔’ ملاقات کے بعد میرے والد نے کہا ، تم ایسے ہی پریشان ہو رہی تھیں ، یہ تو بالکل ہماری طرح کے لوگ ہیں۔ ‘
برطانیہ نے1802ء میں سری لنکا کو اپنی کالونی بنایا تھا۔ اِس سے صرف ایک سال قبل ہی آئرلینڈ کو تاج برطانیہ میں شامل کیا تھا جِس کے بعد آئرلینڈ کی زبان گیلک بولنے والوں پر سختیاں کی جانیں لگیں ۔ ’اگر کوئی گیلک بولتے ہوئے پکڑا جاتا تو اُس کو جیل ہو سکتی تھی، اگر کوئ گیلک پڑھاتے ہوئے پکڑا جاتا تو اسے جلا وطن کر دیا جاتا ۔‘
’اور سری لنکا میں تامل زبان کا کیا بنا؟‘
تامل زبان کا استعمال عدالتوں میں اور سکولوں میں ختم ہو گیا ۔
اور برطانوی راج کے اِس مشترکہ تجربے نے اِس نغمےکو جنم دیا جس کا نام ہے کیلٹک راگ، جو تامل، گیلک اور انگریزی میں لکھا گیا۔
گانےکے بول کچھ اِس طرح ہیں کہ، اگر مجھے اِس زبان کے انتخاب کا اختیار ہو جو مجھے تمھیں مخاطب کرنے کے ليے استعمال کرنی ہے تو میں تامل دیس کی سرخ و سیاہ زبان کا انتخاب کروں جو صحرا کے آرزو بھرے سروں اور ساون کے ابھرتے ہوئے بادل کی گنگناہٹ کی مانند ہے۔
ہم دونوں چھوٹے جزیروں سے تعلق رکھتے ہیں جو بہت وسیع سمندروں کے درمیان ہیں ۔
گیلک اور تامل دونوں زبانیں سمندر کے نزدیک پروان چڑھیں اور اس کا ان دونوں زبانوں پر اثر پڑا ہوگا ۔ اور اس طرح پھر زبان اور موسیقی ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں ۔
گانے کے بول ہیں کہ ہم نے اپنے الفاظ کھو دئے جب ہم نے اپنے دیس کو خیرباد کہا، جب ہم نے سمندر عبور کیے جو آنسوؤں کی مانند تھے ۔
کسی نے ایک دفعہ کہا تھا کے ہر شاعر اپنی زبان کے اندر رہتے ہوئے بھی ایک جلا وطن شخص کی مانند ہوتا ہےاور شاعری کرنے کے لیے اسے دنیا کو ایک مختلف زاویے سے دیکھنا ہوتا ہے، دنیا سےتھوڑا سا مختلف محسوس کرنا ہوتا ہےاور چیزوں کو ایک تازی نظر سےدیکھنا ہوتا ہے۔
تفصیل کے لیےسمیرااسلم کی آڈیو رپورٹ سنیئے: