پنجاب کے جنوبی شہر ملتان کے ایک مقامی اسپتال میں اس نوجوان خاتون کی موت واقع ہو گئی ہے، جسے شادی سے انکار پر ایک شخص نے پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی تھی۔
پولیس کے مطابق یہ واقعہ گزشتہ ماہ ملتان کے ایک دور افتادہ گاؤں میں پیش آیا تھا۔
26 سالہ خاتون کی شناخت سونیا بی بی کے نام سے کی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم لطیف احمد، سونیا بی بی سے شادی کا خواہش مند تھا تاہم اس کی طرف سے شادی سے انکار پر ملزم نے اس پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی تھی جس کی وجہ سے اس کا چالیس سے پچاس فیصد جسم جھلس گیا تھا۔
پولیس کو دیے گئے اپنے ابتدائی بیان میں سونیا بی بی نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی تھی۔
سونیا بی بی کے خاندان نے اسے علاج کے لیے 22 اکتوبر کو نشتر اسپتال ملتان میں منتقل کیا تھا۔ تاہم اسپتال کی برن یونٹ کی ڈاکٹر فاطمہ کے مطابق سونیا بی بی کے جسم میں انفیکشن پھیلنے سے اس کی حالت مزید تشیوناک ہو گئی اور وہ جانبر نہ ہو سکی اور منگل کی صبح اس کا انتقال ہو گیا۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں ہر سال سیکڑوں خواتین کو گھریلو تشدد اور عزت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم "عورت فاؤنڈیشن" کی ایک رپورٹ کے مطابق 2008 کے بعد لگ بھگ تین ہزار خواتین کی ہلاکت ایسے ہی واقعات کی وجہ سے ہوئی۔
عورت فاؤنڈیشن سے وابستہ ایک سرگرم کارکن سمیرا ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا خواتین کے خلاف تشدد کی کئی وجوہات ہیں۔
" ان واقعات کی کوئی مخصوص وجہ نہیں ہے اس کی کئی وجوہات ہیں ہمارے معاشرے میں مردوں کے پاس طاقت ہے اور وہ طاقت کا اظہار اس طرح (تشدد کے ذریعے ) کرتے ہیں اگر ایک خاتون ہے تو اس کے پاس کسی کے ساتھ شادی کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے اور مرد کے پاس طاقت زیادہ ہوتی ہے اور وہ اس فیصلے کو قبول نہیں کرتا اور وہ تشدد کا راستہ اختیار کرتا ہے"۔
سمیرا ملک کا ماننا ہے کہ عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کو میڈیا پر بھی اجاگر کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود ان میں کمی نہیں آرہی۔ ان کے بقول خواتین سے متعلق قوانین میں خامیوں اور کمیوں کو دور کر کے ان کے موثر نفاذ سے خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کو روکا جاسکتا ہے ۔
واضح رہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے خواتین کو تیزاب اور پٹرول کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات کے تدراک کے لیے قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ تاہم اس کے باوجود وقتاً فوقتاً ملک کے مختلف حصوں میں ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔