پچیس برس قبل اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد، اب بھارت کھل کر اسرائیل کے قریب آ رہا ہے، ایسے میں جب پہلے بھارتی وزیر اعظم کے طور پر، منگل کے روز نریندر مودی اسرائیل کے دورے پر روانہ ہوں گے۔
روایتی طور پر بھارت فلسطینی مؤقف کا حامی رہا ہے، جس نے خاموشی کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو تقویت دیتے ہوئے، اعلیٰ سطحی دوروں سے احتراز برت رکھا تھا۔
ایسے میں جب تل ابیب میں وہ اپنے اسرائیلی ہم منصب بینجامن نیتن یاہو سے باضابطہ مذاکرات کریں گے، بھارت کے قوم پرست ہندو راہنما اس احتیاط اور ہچکچاہت سے باہر نکل آئیں گے۔
تعلقات کا شہرہ عام ہوگیا ہے
بھرت کارناڈ نئی دہلی میں قائم ’سینٹر فور پالیسی رسرچ‘ میں حکمت عملی کے امور کے ماہر ہیںں۔ بقول اُن کے، ’’مودی سرکار کو اب پچھلے دور کی سوچ کی اتنی فکر نہیں رہی، جس میں عربوں کے ساتھ تعلقات میں کسی بگاڑ سے گریز کیا جاتا تھا، یا فلسطینی مؤقف ترک کرنے یا پھر داخلی طور پر بھارت کے مسلمانوں کے جذبات کی پاسداری سے دور جانا اس عمل میں مانع تھا‘‘۔
روزنامہ ’دِی انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ہونے والے بیان میں، اسرائیل میں تعینات بھارتی سفیر، پوک کپور نے کہا ہے کہ یہ ’’تعلقات سے باہر نکلنے کا ایک باضابطہ اعلان ہے‘‘۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ یہ سب کچھ مودی کے دور میں ہو رہا ہے، جو طویل عرصے سے اسرائیلی فوج اور تیکنیکی مہارت کے مداح رہے ہیں۔