رسائی کے لنکس

پانچ آئی پی پیز سے بجلی خریدنے کا معاہدہ ختم؛ کیا بلوں میں اب ریلیف مل سکے گا؟


 پاکستان میں بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کی وجہ سے عوام غم و غصے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کی وجہ سے عوام غم و غصے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

  • جن آئی پی پیز سے معاہدے ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے ان میں صبا، لال پیر، اٹلس اور روش اور حب پاور کمپنی لمیٹڈ شامل ہیں۔
  • ماہرین کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے حکومت کو چینی آئی پی پیز کو قیمتوں میں کمی کے لیے رضامند کرنے کے ساتھ بجلی کے شعبے میں ہونے والے نقصانات کو کم کرنا ہو گا۔
  • توانائی کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے حکومت کو چینی آئی پی پیز کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے: ماہر توانائی محمد علی
  • جن پانچ نجی کمپنیوں سے معاہدے ختم کیے گئے ہیں اس عمل سے صارفین کو 60 ارب روپے جب کہ حکومت کو 411 ارب روپے تک کی سالانہ بچت ہو گی: وزیرِ توانائی اویس لغاری کا دعویٰ

کراچی -- پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان نے جمعرات کو پانچ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدے ختم کر نے کا اعلان کیا ہے۔

ایک جانب حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے صارفین پر بجلی کی قیمتوں کا بوجھ کم ہو گا تو دوسری جانب کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اچھے آغاز کے باوجود یہ بہت کم ریلیف ہے۔

ماہرین کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے حکومت کو چینی آئی پی پیز کو قیمتوں میں کمی کے لیے رضامند کرنے کے ساتھ بجلی کے شعبے میں ہونے والے نقصانات کو کم کرنا ہو گا۔

بجلی گھروں سے معاہدے ختم کرنے میں بہت تاخیر ہوئی، فائدہ بھی بہت کم ملا

کراچی میں مقیم ماہر توانائی محمد علی کا کہنا ہے کہ یہ ایک اچھی شروعات تو ہے۔ لیکن اس کا اثر عام صارفین کے لیے بہت کم ہو گا۔

اُن کے بقول اس سے عام صارف کو صرف 77 پیسے فی یونٹ ہی کا فائدہ مل سکے گا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ صرف اس ماہ سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ میں صارفین کو دو روپے فی یونٹ سے زیادہ ادا کرنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود کہ گھریلو صارفین اور تجارتی صارفین کو ان پرانی آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے وقت سے پہلے ختم کرنے سے کوئی زیادہ فائدہ تو نہیں پہنچے گا۔ مگر اس کے باوجود یہ اچھا آغاز ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔

اُن کے بقول اس میں تاخیر سے پاکستانی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ لیکن اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کو اس بات کا اندازہ ہے کہ ملکی معیشت کو چلانے کے لیے توانائی کی قیمتیں کم کرنا کس قدر ضروری ہو چکا ہے۔

بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے لیے چینی آئی پی پیز کو راضی کرنا ہو گا: تجزیہ کار

ایک اور ماہر توانائی طارق علی کا کہنا ہے کہ توانائی کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے حکومت کو چینی آئی پی پیز کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سی پیک کے تحت نئے قائم ہونے والے پاور پلانٹس، خاص طور پر کول پاور پلانٹس نے قیمتیں عام صارف کے لیے ناقابلِ برداشت بنا دی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں 100 سے زائد بجلی پیدا کرنے والے کارخانے ہیں جن میں سے 50 فی صد کے لگ بھگ تو ایسے ہیں جو حکومت کے اپنے ادارے چلا رہے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر چینی حکومت سے حاصل کیے گئے قرضوں سے قائم کیے گئے تھے۔ ان کارخانوں سے حاصل شدہ بجلی کی قیمت میں آپریشن اور مینٹیننس پر آنے والے اخراجات، ورکنگ کیپیٹل، ایکویٹی پر منافع، اصل قرضہ اور اس پر سود کی ادائیگی سمیت دیگر اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔

اگرچہ پاکستانی حکام کوشش کر رہے ہیں کہ چینی حکومت سے گزشتہ ایک دہائی میں لگائے گئے پاور پلانٹس کے ذریعے حاصل شدہ توانائی کے شعبوں میں قرض کو ری پروفائل کروایا جائے۔ لیکن اب تک اس پر حکومت کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ تاہم حکومتی وزرا یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس بارے میں عوام کو جلد اچھی خبر سننے کو ملے گی۔

ادھر وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کا دعویٰ ہے کہ ابتدائی طور پر جن پانچ نجی کمپنیوں سے معاہدے ختم کیے گئے ہیں اس عمل سے صارفین کو 60 ارب روپے جب کہ حکومت کو 411 ارب روپے تک کی سالانہ بچت ہو گی۔

حکومت کی جانب سے جن آئی پی پیز سے معاہدے ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے ان میں صبا، لال پیر، اٹلس اور روش اور حب پاور کمپنی لمیٹڈ شامل ہیں۔

حب پاور کمپنی کے مطابق اس کے معاہدوں کی میعاد مارچ 2027 میں ختم ہونے والی تھی۔ کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے یکم اکتوبر 2024 تک وصولیوں کا تصفیہ کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔

دوسری جانب وفاقی کابینہ کو بتایا گیا کہ روش پاور یونٹ بلٹ، اون اینڈ آپریٹ یعنی بی او پی کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا۔ اس لیے اس کی ملکیت حکومت کو منتقل کی جا رہی ہے جب کہ دوسرے مرحلے میں اس پاور پلانٹ کی نجکاری کردی جائے گی۔

باقی چار آئی پی پیز کی ملکیت ان کے متعلقہ مالکان ہی کے پاس رہے گی اور معاہدہ ختم ہونے کے بعد حکومت کوئی چارجز ادا کرنے کی ذمہ دار نہیں ہو گی۔

مووایبل سولر سسٹم کیسے کام کرتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:28 0:00

اصل مسئلہ کپیسیٹی پیمنٹس کا ہے ہی نہیں: تجزیہ کار

ایک اور ماہر معاشیات خرم شہزاد کا کہنا ہے ملک میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ توانائی کی منصوبہ بندی میں پالیسی میں کوئی سمت اور ہم آہنگی نہیں ہے۔

ان کے بقول نجی بجلی گھروں کی صلاحیت کی ادائیگی یعنی کیپیسٹی پیمنٹ واقعی کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے۔

اس کی کُل رقم تقریباً 18 روپے فی کلو واٹ بنتی ہے۔ بجلی کے بلوں پر اصل مسئلہ 40 سے 45 فی صد اس رقم کا ہے جو بجلی کے ٹیکسوں کی صورت میں حکومت کی جانب سے عائد کیے گئے ہیں۔

اس کے ساتھ بجلی کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں ہونے والے نقصانات، چوری اور سسٹم کی ناکاریاں، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے دیگر نقصانات وغیرہ کو بھی بجلی کے صارف سے وصول کیا جا رہا ہے۔

خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ حکومت خود آئی پی پیز میں 50 فی صد سے زیادہ براہ راست حصص رکھتی ہے۔ خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت بننے والے بجلی گھروں میں حکومت کے بڑے شئیرز ہیں۔ یوں حکومت بطور مالک، خود ہی زیادہ تر نجی بجلی گھروں کے کیپیسٹی پیمنٹس وصول بھی کر رہی ہے۔

لائن لاسز میں کمی لانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے: وزیر توانائی

دوسری جانب وفاقی وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ حکومت باہمی مفاہمت کے ذریعے پاور پلانٹس اور بجلی کی نجی پیداواری کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی اور کارکردگی میں بہتری کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے ملک کا پہلا خود مختار نظام مارکیٹ آپریٹر قائم کیا جا رہا ہے۔

اویس لغاری کے بقول بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور لائن لاسسز میں کمی کے لیے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG