سری نگر میں پولیس نے مظاہرے میں شریک ہونے پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بیٹی اور بہن کو گرفتار کرلیا ہے۔
منگل کے روز سری نگر میں جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات کو ختم کیے جانے کے خلاف مظاہرہ کیا گیا جس میں ممتاز خواتین سماجی کارکنان اور ماہرین تعلیم نے بھی شرکت کی۔
اس موقع پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی تاہم ناکامی پر متعدد خواتین کو حراست میں لے لیا۔
بھارتی نیوز چینل ‘این ڈی ٹی وی’ کے مطابق گرفتار کی جانے والی خواتین میں جموں کشمیر کے سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ بشیر احمد خان کی اہلیہ حوا بشیر بھی شامل ہیں۔
سری نگر کے لال چوک کے قریب واقع پرتاپ پارک میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھائے خواتین مظاہرین نے احتجاج شروع کیا تو پولیس نے ان پر دھاوا بول کر ایک درجن سے زائد خواتین کو حراست میں لے لیا۔
فاروق عبداللہ کی بہن ثریا عبداللہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پانچ اگست کو ان کے گھروں میں قید کر کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا گیا۔ ان کے بقول، جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ ختم کرنا زبردستی کا جوڑ ہے، جو نہیں چلے گا۔
بھارتی اخبار ‘انڈین ایکسپریس’ کے مطابق خواتین کے گروپ کی قیادت کرنے والی فاروق عبداللہ کی بہن ثریا عبداللہ اور بیٹی صفیہ عبداللہ کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اخبار کے مطابق خواتین کو مظاہرے کے لیے اکٹھا ہونے سے روکا گیا گیا اور پولیس کی طرف سے انھیں کہا گیا کہ وہ پر امن طریقے سے منتشر ہوجائیں۔
پیر کے روز 72 دنوں بعد جموں و کشمیر میں پوسٹ پیڈ موبائل سروس بحال ہونے کے بعد خواتین پر امن مظاہرے کے لیے اکٹھی ہوئی تھیں۔
بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سیکڑوں کشمیری رہنما گھروں میں نظر بند ہیں یا سیکیورٹی اداروں کی حراست میں ہیں۔ جن میں سابق وزرائے اعلی جموں و کشمیر فاروق عبداللہ، ان کے صاحبزادے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی شامل ہیں۔
تراسی سالہ فاروق عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سری نگر میں واقع ان کے اپنے گھر میں نظر بند کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر کسی مقدمے کے تین سے چھ ماہ کے لیے حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔
بھارتی حکومت کے اقدام کے بعد سے وادی میں حالات کشیدہ ہیں اور حکومت مخالف مظاہروں میں اس اقدام کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔